کیا کبھی آپ نے سوچا تھا کہ کوئی جج آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کا سہارا لے کر کسی کیس کا فیصلہ سنائے گا؟ اور وہ بھی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں؟ جی ہاں یہ سچ ہے کیوں کہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤ الدین کے مقامی جج نے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کر کے فیصلہ سنایا۔
منڈی بہاؤالدین کے ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر منیر نے کم عمر ملزم کو ریپ کی کوشش کے الزام میں ضمانت قبل از گرفتاری دینے کے فیصلے میں چیٹ جی پی ٹی کا سہارا لیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ اس بچے کو ضمانت قبل از گرفتاری دی جائے کیوں اس مقدمے میں کئی قانونی نقائص ہیں۔
جج عامر منیر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت نے مقدمے کے معروضی حالات کی جانچ کے بعد مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر چیٹ جی پی ٹی فور سے مدد لینے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ تعین ہو سکے کہ مستقبل میں یہ ٹیکنالوجی قانونی پیچیدگیوں میں کیسے مدد کر سکتی ہے۔
جج محمد عامر مینر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کئی ملکوں میں قانونی مشاورت کے لیے روبوٹس سے مدد لی جا رہی ہے۔ اُن کے بقول اُنہوں نے یہ فیصلہ تجرباتی طور پر کیا کیوں کہ عدالت معروضی حقائق پر بچے کو ضمانت دینے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر منیر نے 21 صفحات پر مشتمل اس کیس کا فیصلہ چند روز قبل جاری کیا اور بعض قانونی معاملات سے متعلق سوالات کے جواب جاننے کے لیے چیٹ جی پی ٹی کی بھی مدد لی۔
چیٹ جی پی ٹی کیا ہے؟
مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی 'اوپن اے آئی' نے 'چیٹ جی پی ٹی' کے نام سے گزشتہ برس نومبر میں ایک سافٹ ویئر متعارف کرایا تھا جو 'گوگل' کی طرز پر صارفین کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا چیٹنگ بوٹ 'چیٹ جی پی ٹی' گزشتہ برس 30 نومبر کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے روازنہ اسے لاکھوں لوگ استعمال کررہے ہیں۔
سائبر سیکیورٹی کے ماہر ڈاکٹر آصف مسعود بلوچ کہتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی بنیادی طور پر ایک سہولت ہے جس میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے سوال پوچھ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کیوں کہ یہ حال ہی میں لانچ کیا گیا ہے، لہذٰا اس کی افادیت اور مستند ہونے کے معاملے پر مزید تحقیق درکار ہے۔
کیا عدالتی اُمور میں مصنوعی ذہانت سے مدد لی جا سکتی ہے؟
ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر منیر اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے چیٹ جی پی ٹی فور اوپن اے آئی سے پہلا سوال کیا کہ پاکستان میں ایک کم عمر ملزم بچہ جس کی عمر 13سال ہے کیا اس کو ضمانت بعد از گرفتاری دی جا سکتی ہے؟
چیٹ جی پی ٹی فور نے جواب دیا کہ پاکستان میں اس وقت جوینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018نافذ العمل ہے جس کی سیکشن 12 کے تحت عدالت مشروط طور پر ضمانت لے سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ تا ہم اس کا حتمی فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔
اس پر جج نے سوال کیا کہ کیا اس کو تعزیرات پاکستان کی سیکشن 83 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو پھر کیا صورتِ حال ہو گی؟ اس پر چیٹ جی پی ٹی سے جواب ملا کہ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 83 کے مطابق سات سال تک کی عمر کے ہاتھوں ہونے والا جرم شمار نہیں ہو گا جب کہ 12 سال کی عمر تک یہ تصور ہو گا کہ بچہ جرم کرنے کے قابل نہیں ہے۔ جواب میں مزید کہا گیا کہ اس شق کا اطلاق عدالت کی صوابدید پر ہے۔
اس پر ایڈیشنل سیشن جج نے چیٹ جی پی ٹی کو بتایا کہ پاکستان کے قوانین میں ترمیم ہو چکی ہے۔ 14 سال تک عمر کے بچے کے جرم کرنے کی اہلیت کا تعین عدالت کی جانچ پر منحصر ہے۔ سافٹ ویئر نے تصحیح کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ صحیح کہ رہے ہیں 2016 میں ایک ترمیم کے ذریعے عمر کی حد بڑھا دی گئی تھی۔
بچے کو ضمانت دینے یا نہ دینے پر چیٹ جی پی ٹی نے لکھا کہ جو حقائق بتائے جا رہے ہیں اس میں قانونی طور پر ضمانت لی جا سکتی ہے البتہ اِس بات کا حتمی فیصلہ عدالت کرے گی۔
ایڈیشنل سیشن جج نے اپنے فیصلے کے اختتام پر لکھا کہ ضمانت کا فیصلہ عام طور پر اتنا طویل نہیں ہوتا تاہم ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث پوری کی پوری ڈسکشن لکھنا ضروری تھا۔ مقامی عدالت نے اپنے فیصلے کی ایک کاپی لاہور ہائی کورٹ کو ارسال کر دی ہے۔
خیال رہے اِس وقت دنیا بھر میں عدالتی اُمور کے لیے مختلف اقسام کی ٹیکنالوجیز کا استعمال دیکھنے میں آ رہا ہے جن میں سے ویڈیو لنک پر ملزمان کی حاضری بھی شامل ہے۔
عدالتی اُمور میں استعمال
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن ایسوسی ایشن کے صدر اور نجی کمپنی برین نیٹ اینڈ ٹیلیکام کے سی ای او ڈاکٹر شاہد علوی بناتے ہیں کہ ایسی صورت میں عدالت کو یا عدالتی عملے کو بتانا ہو گا کہ وہ عدالتی امور میں چیٹ جی پی ٹی یا فلاں سافٹ وئیر کو استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا سافٹ وئیر چیٹ جی پی ٹی گوگل سے بھی آگے کی چیز ہے جس میں بہت ساری معلومات رکھی گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سرکاری اداروں میں ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیشِ نظر اِس کا استعمال بڑھانا ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ عموی طور پر بہت سارے ایسے موضوعات ہیں جہاں زیادہ معلومات درکار ہوتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے سرکاری سطح پر جو فیصلے کیے گئے ہیں اور وہ سمجھ نہیں آ رہے تو اُنہیں ایک جگہ محفوظ کر کے کم وقت میں اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر آصف مسعود بلوچ کہتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی کی لائبریری میں مختلف ممالک کے قوانین سے متعلق معلومات رکھی گئی ہے۔ لیکن دنیا بھر میں بعض قوانین کی شقیں ایک جیسی ہی ہیں۔
سوشل میڈیا کمپنی ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک، مصنوعی ذہانت کے ماہرین اور کچھ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان نے حال ہی میں مطالبہ کیا تھا کہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے مزید طاقت ور اور مؤثر نظام بنانے کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک اس کے محفوظ ہونے کو ممکن نہیں بنا لیا جاتا۔
یہ مطالبہ لگ بھگ ایک ہزار ماہرین اور ٹیکنالوجی کمپنیوں سے وابستہ افراد کے دستخط شدہ ایک خط کے ذریعے سامنے آیا تھا۔ ایلون مسک کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کمپنی ’ایپل‘ کے شریک اسٹیو وزنائک نے بھی دستخط کیے تھے۔