گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے پارلیمنٹ میں بنگالی زبان کے معروف قومی روزنامے ’پروتھم الو‘ پر سخت تنقید کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ یہ اخبار ان کی حکمران جماعت عوامی لیگ پارٹی، جمہوریت اور ملک کے عوام کا دشمن ہے۔
اخبار کے ایڈیٹر مطیع الرحمان کے خلاف ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جس پر گزشتہ ہفتے انہوں نے خود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا اور عدالت نے ان کی ضمانت منظور کر لی ۔
اس سے قبل پروتھم الو کے ایک صحافی شمس الزماں شمس کو ملک میں مہنگائی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کرنے پر گرفتار کر کے جیل بھیجا جا چکا ہے۔حکومت کا الزام ہے کہ شمس نے 26 مارچ ملک کے یوم آزادی پر شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں، مطیع الرحمان نے حکمراں جماعت کے کارکنوں کے گروپ کی جانب سے ’ پروتھم الو‘ کے دفتر پر حالیہ حملے، ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ، ملک میں خوف کے ماحول، آزادی اظہار کو لاحق خطرات ، خاص طور پر حکومت کی جانب سے صحافیوں کو درپیش خطرات اور آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات اور دیگر معاملات پر بات کی۔
مطیع الرحمان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ صحافیوں میں خوف کا احساس پایا جاتاہے جس کے نتیجے میں انہوں نے خود پر سیلف سینسرشپ عائد کر رکھی ہے۔ وہ ظلم وجبر کی فضا میں رہتے ہیں۔ صحافیوں میں یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ گرفتار ہونے کی صورت میں پولیس کی حراست اور بعد ازاں جیل میں انہیں کس صورت حال سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔
مطیع الرحمان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ کو جس طرح آزادئ رائے کو کچلنے اور مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اس میں اصلاحات سے کام نہیں چلے گا۔ اب اس قانون کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے فوجی حمایت یافتہ نگراں حکومت کی وجوہات اور اثرات پر بھی بات کی، جس نے جنوری 2011 میں دو سال تک ملک کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملک کی حکومت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کبھی بھی مثبت نتائج نہیں لاتی۔
آئندہ انتخابات کے بارے میں مطیع الرحمان نے کہا کہ بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے گزشتہ سال کے ورلڈ پریس فریڈیم انڈیکس میں 180 ملکوں کی فہرست میں بنگلہ دیش کو 162 ویں درجے پر رکھا تھا جس کے بعد روس اور افغانستان آتے ہیں۔
(وی او اے نیوز)