افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ پاکستان اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو باہمی طور پر اپنے معاملات حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں گفتگو کرتے ہوئے امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد طالبان کی حکومت نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کی بھرپور کوشش کی تھی۔
امیر خان متقی نے یہ بات ایک اسے وقت میں کہی ہے جب حال ہی میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی اجلاس اسلام آباد کی میزبانی میں ہوا ہے۔
ہفتے کو پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ چین کے وزیرِ خارجہ چن کانگ نے پریس کانفرنس میں افغان طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ پڑوسی ممالک کی سیکیورٹی سے متعلق تحفظات کو سنجید گی سے لیں۔
اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں گفتگو میں امیر خان متقی نے افغانستان میں عالمی دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کی رپورٹ کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد گروہ نہیں ہے۔
ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کرنے کے سوال پر امیر خان متقی نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کا قیام ان کی حکومت آنے سے پہلے ہوا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی اور وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں مداخلت کرےکیوں کہ یہ خود افغانستان کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے بیانات کے برعکس پاکستانی حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی افغانستان سے پاکستان میں حملے کر رہی ہے۔حالیہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ اپریل میں شدت پسند گروہ نے پاکستان میں 48 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
افغان طالبان کے مقرر کردہ وزیرِ خارجہ نے پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے بات چیت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام ممالک اس بات پر متقفق ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف زمینی بلکہ فضائی حدود بھی کسی کو استعمال کرنے نہیں دی جائے گی اور وہ چاہیں گے کہ خطے میں امن برقرار رہے۔ خطے میں امن و امان کا اثر افغانستان پر بھی پڑے گا جو کہ اس کی ترقی کی راہ میں سب سے زیادہ حائل ہوگا۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان طالبان نے خواتین کی ملازمت اور تعلیم کے حصول کے حوالے سے کئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ جب کہ محرم کے بغیر 70 کلومیٹر سے زائد سفر، عوامی مقامات پر برقع پہننے کی پابندی اور مرد کے بغیر پبلک پارکس میں جانے پر پابندی نمایاں ہیں۔
خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی کے باعث عالمی برادری کی جانب سے افغان طالبان مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔
تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے روزگار اور تعلیم کے خلاف ہر گز نہیں ہیں بلکہ مناسب وقت پر اس بابت احکامات صادر کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں امیر خان متقی نے واضح کیا کہ طالبان نے یہ بات کہیں بھی نہیں کہی کہ خواتین کی تعلیم حرام ہے۔ ہم نے یہ بات کہیں بھی نہیں کہی کہ خواتین کی تعلیم ہمیشہ کے لیے ممنوع ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ امر ثانی تک یہ عمل معطل ہے۔
امیر خان متقی کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ تجارتی امور میں بھی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران تجارت تقریبا دگنی ہو چکی ہے اور ان کی خواہش ہے رواں سال یہ حجم تین ارب ڈالر تک پہنچ جائے۔