امریکہ کی ریاست مونٹانا کے گورنر گریک جین فورٹے نے چینی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کے قانون پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد مونٹانا امریکہ کی پہلی ریاست بن گئی ہے جہاں اس ویڈیو ایپ کے استعمال پر پابندی ہوگی۔
اس قانون کے بعد مونٹانا میں گوگل اور ایپل کے ایپ اسٹورز کے لیے یہ غیر قانونی ہوگا کہ وہ اس کی حدود میں ٹک ٹاک ایپ کی پیش کش کریں۔
اس پابندی کا اطلاق یکم جنوری 2024 سے ہوگا۔
ٹک ٹاک کے 15 کروڑ امریکی صارفین ہیں لیکن امریکی قانون سازوں اور ریاستی حکام کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد اس پلیٹ فارم پر چینی حکومت کے ممکنہ اثرورسوخ کے خدشات کے پیش نظر ملک بھر میں پابندی کا مطالبہ کر رہی ہے۔
مارچ میں کانگریس کی ایک کمیٹی نے ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو شاؤ زی چیو سے اس بارے میں سوال جواب کیے تھے کہ آیا چینی حکومت صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکتی ہے یا ایپ پر امریکی جو دیکھتے ہیں اس پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
مونٹانا کے ری پبلکن گورنرگریک جین فورٹے نے کہا کہ یہ بل مونٹانا کے شہریوں کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی نگرانی سے بچانے کی ہماری مشترکہ ترجیح کو مزید آگے بڑھائے گا۔
دوسری جانب ٹک ٹاک کی مالک کمپنی 'بائیٹ ڈانس' نے ایک بیان میں کہا کہ یہ بل ٹک ٹاک پر غیرقانونی طور پر پابندی لگا کر مونٹانا کے لوگوں کے حقوق کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ مونٹانا کے اندر اور باہر اپنے صارفین کے حقوق کا دفاع کرے گی۔
کمپنی پہلے ہی چینی حکومت کے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے سے انکار کرچکی ہے اور کہہ چکی ہے کہ اگر اس سے ایسا کہا بھی گیا تو وہ نہیں کرے گی۔
دس لاکھ سے زیادہ آبادی والی ریاست مونٹانا کا کہنا ہے کہ ہر خلاف ورزی پر ٹک ٹاک کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ اگر اس نے پابندی کی خلاف ورزی کی تو اسے 10 ہزار ڈالر یومیہ اضافی جرمانہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایپل اور گوگل بھی پابندی کی خلاف ورزی پر 10 ہزار ڈالر یومیہ جرمانے کا سامنا کرسکتی ہیں۔
دوسری جانب اس پابندی کو ممکنہ طور پر متعدد قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ یہ صارفین کے آزادانہ اظہارِ رائے کے حقوق کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس سے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2020 میں محکمۂ تجارت کے ایک حکم کے ذریعے ٹک ٹاک اور وی چیٹ کے نئے ڈاؤن لوڈز پر پابندی کی کوشش کی تھی جسے متعدد عدالتوں نے روک دیا تھا اور یہ کبھی نافذ العمل نہیں ہوا تھا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔