رسائی کے لنکس

پاکستان میں نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کے مراحل؛’پارٹی چلانا مشکل لیکن بنانا آسان ہے‘


فائل۔
فائل۔

نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی اپنی پارٹی سے علیحدگی اور پھر لاہور میں پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین کے سرگرم ہونے کے بعد کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کی باز گشت سنائی دے رہی تھی۔

سیاسی اور صحافتی حلقوں میں گردش کرتی یہ خبریں بالآخر درست ثابت ہوئیں اور جمعرات کو جہانگیر ترین نے ’استحکامِ پاکستان پارٹی‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کردیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 168 ہے اور اس اعتبار سے اگر حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی یعنی 24 کروڑ کو اس ہندسے سے تقسیم کیا جائے تو 14 لاکھ افراد کے لیے ایک سیاسی جماعت بنتی ہے۔ اب ان سیاسی جماعتوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا ہے۔

پاکستان میں چاہے کسی سیاسی جماعت کے لیے عوامی مقبولیت حاصل کرنا، جوڑ توڑ اور حکومت بنانے جیسے مراحل کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کے بقول نئی سیاسی جماعت بنانا بہت آسان ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں سیاسی جماعتوں سے متعلق گیارہویں باب میں آرٹیکل 200 سے 215 تک اس کا طریقۂ کار درج ہے جو بہت سادہ اور آسان ہے۔

سیاسی جماعت کیسے رجسٹرڈ کرائی جاتی ہے؟

کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت کے قیام اور اس کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کے لیے سیاسی جماعت کا علیحدہ نام ہونا چاہیے جو پہلے سے رجسٹرڈ نہ ہو۔ پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے اس کا ایک دستور، ورکنگ پارٹی کے عہدے دار، پرچم اور کم از کم دو ہزار ممبران ہونا ضروری ہیں۔ جو فرد پارٹی کی رجسٹریشن کرانا چاہتا ہے اس کے پاس شناختی کارڈ ہونا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے پارٹی کا آئین لازمی قرار دیا گیا ہے جس کا آئینِ پاکستان میں وضع کیے گئے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ پارٹی کے دستور میں پارٹی کے اغراض و مقاصد کی تفصیلات بھی شامل ہوتی ہیں۔ پارٹی رجسٹریشن کے لیے پارٹی کا منشور وغیرہ جمع کرانا شرط نہیں ہے۔

الیکشن ایکٹ کے تحت کوئی بھی ایسی پارٹی جو الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہو اس کے لیے انٹرا پارٹی یعنی پارٹی کے عہدے داروں کا انتخاب کرانا بھی ضروری ہے۔

علاوہ ازیں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے مالیاتی گوشوارے بھی لازمی جمع کرانا ہوتے ہیں۔

کنور دلشاد بتاتے ہیں کہ جب مطلوبہ دستاویزات الیکشن کمیشن کو موصول ہوجاتی ہیں تو ان کا جائزہ لے کر اس کی رجسٹریشن کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

’الیکشن کمیشن انتخابی نشان واپس نہیں لے سکتا‘

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد بتاتے ہیں کہ پارٹی کی رجسٹریشن کے بعد اسے انتخابی نشان الاٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن دستیاب تین نشانات کا آپشن دیتا ہے یا جماعت کسی نشان کی درخواست کرتی ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ وہ انتخابی نشان کسی اور پارٹی کے پاس تو نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی سیاسی جماعت کے نام پر رجسٹرڈ انتخابی نشان کسی اور جماعت کو الاٹ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

سال 2010 میں جب سابق فوجی حکمران جنرل ریٹائرد پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو ان کی پارٹی نے انتخابی نشان کے لیے ’عقاب‘ کے نشان کی درخواست دی تھی جو پہلے ہی سے کسی جماعت کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔

اس بارے میں کنور دلشاد نے بتایا کہ سال 2000 میں ’ہزارہ فرنٹ‘ کے نام سے ایک جماعت رجسٹرڈ ہوئی تھی جسے فیلکن یا عقاب کا نشان الاٹ کیا گیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اے پی ایم ایل کی درخواست کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ہزارہ فرنٹ محض نام نہاد جماعت تھی۔ اس نے نہ تو انتخابات میں حصہ لیا تھا اور نہ ہی اپنے گوشوارے جمع کرائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کے گوشوارے جمع کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے بعد بارہا اس جماعت کو اپنے گوشواروں کی تفصیلات جمع کرانے کے لیے مراسلے بھیجے گئے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اس کے بعد اے پی ایم ایل کو عقاب کا نشان الاٹ کر دیا گیا۔

انٹرا پارٹی الیکشن اور ای سی پی کا کردار

کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیے اپنے عہدے داروں کا انتخاب کرانا یا انٹرا پاٹی الیکشن کرانا لازم ہے تاہم سوائے جماعت اسلامی کے کوئی قابلِ ذکر جماعت باقاعدہ طور پر انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کراتی بلکہ محض خانہ پوری ہی کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر الیکشن سے متعلق کوئی بھی جماعت جو تفصیلات اور نتائج الیکشن کمیشن کو فراہم کرتی ہے کمیشن کے پاس انہیں تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ 2015 میں جب اس دور میں ایک انتخابی اصلاحاتی کمیٹی بنائی گئی تھی تو انہوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کے اندر ہونے والے الیکشن کی نگرانی کا اختیار بھی دیا جائے۔ لیکن اس وقت حکومت کی نمائندگی کرنے والے اسحاق ڈار نے یہ تجویز مسترد کردی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں انٹرا پارٹی الیکشن قدرے شفافیت کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اس کی نگرانی کرتا ہے اور سیاسی جماعتیں باقاعدہ اپنے ارکان کو رکنیت کارڈز جاری کرتی ہیں اور پارٹی الیکشن سے پہلے گھر گھر جا کر مہم بھی چلائی جاتی ہے۔

نااہلی اور پارٹی کی قیادت

پاکستان میں جمعرات کو استحکامِ پاکستان پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کرنے والے پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مالی بے ضابطگی کے ایک کیس میں 2017 میں سیاست کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔

اس سے قبل 2017 میں سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو پانامہ پیپرز سے متعلق ایک کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔ بعدازاں فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ سیاست سے نااہلی بنیاد پر نواز شریف اپنی سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی نہیں کرسکتے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے مارچ 2018 میں ہونےو الے سینیٹ الیکشن کے لیے نواز شریف کے بطور پارٹی سربراہ جاری کردہ ٹکٹ بھی منسوخ کردیے تھے۔

ان فیصلوں کی روشنی میں نئی پارٹی میں جہانگیر ترین کا کیا کردار ہوگا؟ اس بارے میں کنور دلشاد کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں اور قواعد کی روشنی میں جہانگیر ترین اپنی نااہلی کی وجہ سے پارٹی کی کسی دستاویز پر دستخط نہیں کرسکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح نااہلی کے بعد نواز شریف پارٹی کے قائد اور شہباز شریف صدر بن گئے اسی طرح جہانگیر ترین پارٹی کے سرپرست اعلیٰ یا قائد ہی بن سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG