امریکہ کےصدر جو بائیڈن نے کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو سے فون پربات کرکے انہیں جنگلات میں لگنے والی تباہ کن آگ پر قابو پانے کے لیے مدد کی پیش کش کی ہے۔
امریکی صدر نے ہدایت کی ہے کہ وفاقی فائر فائٹنگ کے دستیاب وسائل کینیڈا اور امریکہ میں عوام کو متاثر کرنے والی آگ پر قابو پانے میں مدد کے لیے تعینات کیے جائیں۔
امریکہ 600 فائر فائٹرز اور امدادی عملے کے ارکان کے ساتھ آگ بجھانے کا ساز و سامان کینیڈا میں جنگلات کی آگ پر قابو پانے کے لیے بھیج چکاہے۔
کیوبیک کینیڈا کے ان 13 صوبوں میں سے ایک ہے جہاں اس وقت 150 مختلف مقامات پر لگنے والی آگ پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حکام کو امید ہے کہ اضافی فائر فائٹرز اور بارش سے آگ پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے جنگلات کی آگ سے تحفظ اور متاثرہ علاقوں کے شہریوں کی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے تعاون پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
کیوبیک کے پریمیئر فرانکوئس لیگلٹ کا کہنا ہے کہ پیر کی شام سے پہلے کسی بڑی بارش کی پیش گوئی نہیں ہے۔ ان کے بقول وہ وسائل کی کمی سے بھی پریشان ہیں۔
انہوں نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ موجودہ وسائل کے ساتھ ایک وقت میں لگ بھگ 40 مقامات پر ہی آگ پر قابو پانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
کیوبیک میں سینکڑوں فائر فائٹرز کو تعینات کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں فرانس اور امریکہ سے بھی مدد ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اوٹاوا میں وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ یہ ملک بھر میں جنگل کی آگ کا بدترین سیزن رہا ہے۔
کینیڈا حالیہ برسوں میں بار بار شدید موسم کی زد میں رہا ہے جس کی شدت میں اضافے کی وجہ گلوبل وارمنگ کو قرار دیا جا رہا ہے۔
بدھ تک لگ بھگ 38 لاکھ ایکڑ رقبہ آتش زدگی کی زد میں آ چکا تھا اور کینیڈا بھر میں اس آگ سے دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکےہیں۔
بے گھر لوگوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیوں کہ کیوبیک میں مزید ہزاروں افراد کواپنے گھر چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
نقل مکانی کرنے والوں میں شامل نینسی ڈیسالنیئرز نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ اور ان کے پارٹنر دو کتوں کے ساتھ بدھ کی صبح دو بجے چیبوگاماؤ قصبے میں اپنے گھر سے نکل گئے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے کشتی کے ذریعے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے وہ اپنا ضروری سامان ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے۔
ایک اور شخص چپائیس ڈینئل ہاروے، نے ’لا پریس اخبار‘ کو بتایا کہ "ہم نےاہم کاغذات، ہارڈ ڈرائیوز، تصاویر اکٹھی کیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کیا ہوگا، اس لیے ہمیں اس طرح کام کرنا پڑا جیسے سب کچھ جل سکتا ہے۔"
کیوبیک کے پریمئر فرانکوئس لیگلٹ کے مطابق انخلا کے احکامات کم از کم اگلے ہفتے کے اوائل تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔