وفاقی حکومت نے نو مئی کے واقعات کے بعد فوج کی حراست میں دیے گئے 102 افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ کے چھ رُکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے فوج کی زیرِ حراست 102 افراد کی فہرست بند لفافے میں عدالت میں جمع کرائی۔
اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ اس فہرست کو پبلک نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ کسی کے خلاف شواہد نہ ہونے پر کارروائی کرنا تو مضحکہ خیز ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک مجسٹریٹ بھی تب تک ملزم کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتا جب تک پولیس رپورٹ نہ آئے۔
عمران خان کے وکیل عزیز بھنڈاری نے دلائل دیے کہ کچھ مستند آوازیں ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شکوک شبہات کا اظہار کر رہیں ہیں۔ہماری استدعا ہے کہ اوپن ٹرائل کیا جائے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میں اپنی تحریری معروضات کے ساتھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی معلومات فراہم کروں گا۔میں ایف آئی آر میں افیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہ ہونے پر بھی معاونت کروں گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کی کسٹڈی لیتے وقت الزامات بھی فراہم کر دیے تھے۔ نو مئی کا واقعہ تھا جس کے بعد 15 دن لیے گئے پھر ملزمان کی حوالگی کا عمل ہوا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اب تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا اور اس وقت جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔
منگل کو سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔
درخواست گزار سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل عزیز کرامت بھنڈاری نے مؤقف اختیار کیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ "ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق اور الگ وجوہات تھیں۔
'حکومت عمران ریاض خان کا کھوج لگائے'
دورانِ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان اور اٹارنی جنرل کے درمیان عمران ریاض خان کا بھی تذکرہ ہوا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نو مئی کے واقعات کے بعد کوئی وکیل گرفتار نہیں ہوا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا کے ساتھ بدسلوکی ہوئی تو تحفظ فراہم کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صحافیوں کا بتائیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جانتا ہوں کہ ایک صحافی مسنگ ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عمران ریاض خان کی بات کر رہے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ہماری حراست میں نہیں ہے، ان کی ریکوری کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی صلاحیتوں سے یقینی بنائیں اور عمران ریاض کا پتا لگائیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر منگل کو چوتھی سماعت ہوئی۔ پیر کو سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیا تھا۔عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ فوج کی حراست میں موجود افراد کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان، سینئر قانون دان اعتزاز احسن، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ سمیت دیگر افراد نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات چلائے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں۔
درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ اور جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین اپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں۔ ابتدائی طور پر ان درخواستوں کی سماعت کے لیے نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا۔
چھ رُکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔