سپریم کورٹ آف پاکستان نے نو مئی کے واقعات کے بعد فوج کی زیرِ حراست 102 افراد کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رُکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ فوج کی زیرِ حراست افراد کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔
پیر کو عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے پاس عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کوئی چھڑی نہیں ہے۔ جن کے پاس چھڑی ہے ان کے پاس کیا اخلاقی جواز ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے میں آئین اور قانون کے بجائے دیگر ترکیبیں استعمال کی جا رہی ہیں۔ایسی ترکیبوں کا استعمال اچھی بات نہیں ہے۔
سات رُکنی بینچ ٹوٹ گیا
اس سے قبل فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ کا سات رُکنی لارجر بینچ، وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد ٹوٹ گیا۔ بینچ میں شامل جج جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ وفاقی حکومت کو بینچ میں شامل ایک معزز جج پر اعتراض ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ درخواست گزاروں میں سے ایک کے رشتے دار ہیں جس کی وجہ سے اُن کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ جج صاحب کے بارے میں جانب داری کا کہہ رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراؤکا؟ آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں۔ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اُنہوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ کسی کو اعتراض ہے تو بتا دے۔ اس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کے بعد سات رُکنی بینچ کے ارکان اُٹھ کر چلے گئے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے چھ رُکنی بینچ نے سماعت شروع کی۔
سینئر قانون دان اعتزاز احسن، سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ، سابق وزیرِ اعظم عمران خان سمیت دیگر افراد نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کےمقدمےچلائے جانےکے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان درخواستوں کی سماعت کے لیے ابتداً نو رُکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔
لیکن گزشتہ ہفتے سماعت کے پہلے ہی روز جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے یہ کہہ کر خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
دونوں ججز کی علیحدگی کے بعد سات رُکنی بینچ نے سماعت جاری رکھی تھی۔ تاہم پیر کو جسٹس منصور علی شاہ کی بینچ سے علیحدگی کے بعد سات رُکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ہے کیا؟
پاکستان کی پارلیمان نے اپریل میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری دی تھی۔
بل کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔
آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججوں کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔
بل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو محدود کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِِ سماعت ہے۔