رسائی کے لنکس

پاکستان اور افغانستان کے تاجر 'بارٹر ٹریڈ' سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھا پا رہے؟


15 اگست 2021 سے قبل پشاور سے طورخم کی شاہراہ پر ہروقت زندگی رواں دواں دکھائی دیتی تھی۔ پاکستان، افغان سرحد سے نیٹو کنٹینرز کی گزرگاہ ہونے کے سبب قبائلی ضلع خیبر میں واقع اس شاہراہ پر کئی ہوٹل، ورکشاپس اور مارکیٹیں آباد ہوئیں۔

پشاور اور قبائلی ضلع کے سنگم پر کارخانو مارکیٹ کی "بش مارکیٹ" غیرملکی سامان سے بھری ہوتی تھی۔11 ستمبر کے بعد اتحادی افواج کے لیے آنے والا سامان لوٹ مار کے بعد جس مارکیٹ میں دستیاب تھا مقامی لوگ اسے سابق امریکی صدر بش کے نام سے یاد کرنے لگے تھے۔

کارخانو مارکیٹ سے جوں جوں آپ پاک، افغان سرحد طورخم کے نزدیک ہوتے جاتے غیرملکی سامان سے لدے کنٹینرز کی لمبی لمبی قطاریں رینگ رینگ کر بارڈر کراس کرتیں۔

افغانستان کی تعمیرِ نو کا کام جاری تھا اس لیے بارڈر کے آر پار عوام کی جوق درجوق آمدورفت جاری تھی۔دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالرز کا کاروبار ہو رہا تھا۔

لیکن اب اس شاہراہ پر وہ رونقیں نہیں رہیں جو پہلے ہوا کرتی تھیں۔ حال ہی میں پاکستان، افغانستان , روس اور ایران کے مابین بارٹرٹریڈ یعنی مال کے بدلے مال کا معاہدہ ہوا ہے، لیکن ایک ماہ گزر جانے کے باوجود اس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

یکم جون 2023 کو پاکستان کی وزارتِ تجارت کی جانب سے ایس آر او جاری ہوا کہ پاکستان اب روس، افغانستان اور ایران کے ساتھ بزنس ٹو بزنس یعنی بی ٹو بی بارٹر ٹریڈ میکنزم 2023 کے تحت مال کے بدلے مال کا تبادلہ کرے گا۔ اس سلسلے میں اشیا کی فہرست بھی جاری کی گئی۔

اس کے بعد خیال کیا گیا کہ اس تاریخی شاہراہ پر ایک بار پھر کاروبار بحال ہوگا اور بڑی بڑی گاڑیاں پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان کی طرف رواں دواں ہوں گی۔

لیکن مقامی میڈیا میں ہیڈلائنز بننے کے باوجود ابھی تک اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آتی اور ان ممالک کی تاجر برادری میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

بارٹر ٹریڈ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟

ماہرین کے مطابق بارٹر ٹریڈ پر آمادہ ان سارے ممالک کو ڈالرز کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایران، افغانستان اور روس کو عالمی سطح پر تجارت میں عالمی پابندیوں کا سامنا ہے تاہم اس حوالے سے پاکستان کے پاس نسبتاً کھلے مواقع موجود ہیں۔

سرحد چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر اور خیبرپختونخوا کی ممتاز کاروباری شخصیت شاہد حسین کہتے ہیں کہ بارٹر ٹریڈ پر اس وقت کئی حوالوں سے اُلجھنیں موجود ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملے میں 'حوالہ' یا 'ہنڈی' اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا عنصر بہت اہم ہے۔

اُن کے بقول ماضی میں پاکستانی تاجر افغانستان سے سامان خریدتے رہے اس کے پیسے پاکستان میں کہیں ادا کیے جاتے رہے اور پھر اس سے پاکستان سے مال خرید کر افغانستان بھیجا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب طریقۂ کار کے حوالے سے ابہام ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "میں افغانستان کے ساتھ تجارت کرتا ہوں میرے علم میں نہیں ہے کہ اب میکنزم کیاہوگا۔"

شاہد حسین نے بتایا کہ وہ کافی پرامید تھے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد کاروبار میں تیزی آئے گی اور پاکستان کے لیے وسطی ایشیا تک رسائی میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اس طرح پورے خطے میں معاشی استحکام آئے گا۔

بارٹر سسٹم : زرمبادلہ میں بچت اور تجارت میں اضافہ ہو گا
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:38 0:00

داعش کا خطرہ اور افغان طالبان کی پالیسیاں

ماہرین کے مطابق اس وقت بھی داعش کی شکل میں افغانستان کے امن کے لیے ایک خطرہ موجود ہے جب کہ افغان طالبان کی پالیسیاں اور ان پر عالمی پابندیاں بھی ہیں۔پھر وقتاً فوقتاً افغان طالبان کی کبھی ایران تو کبھی پاکستان کے ساتھ سرحدوں پر چپقلش ناامیدی کو اور بڑھا دیتی ہے۔

پاکستان کی جانب سے ایس آر او تو جاری کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک افغانستان کی جانب سے وہاں کی تاجر برادری کو طالبان حکومت نے کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔ اس وجہ سے وہاں پر بھی کئی اُلجھنیں ہیں۔

ان الجھنوں کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان چیمبر آف کامرس کے رہنما خان جان الکوزے کہتے ہیں اس معاملے پر اُنہوں نے پاکستان کی تاجر برادری اور متعلقہ حکام سے طویل مشاورت کی ہے۔

وائس آٖف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بارٹر ٹریڈ کا ایک روایتی طریقہ تو پہلے سے موجود تھا لیکن پاکستان کی یہ خواہش تھی کہ اس کو اب باضابطہ طور پر ایک میکنزم کے تحت لایا جائے تاکہ ہنڈی یا حوالہ کلچر کا خاتمہ ہو۔

اُن کے بقول یہ دونوں ملکوں کے لیے بہت مثبت پیش رفت ہے۔ افغانستان کی درآمدات و برآمدات ایران اور روس کے ساتھ اتنی نہیں ہیں جتنی پاکستان کے ساتھ ہیں۔

'طالبان حکومت کی واضح پالیسی کا انتظار ہے'

خان جان الکوزے کہتے ہیں کہ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہم افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کی جانب سے اور مرکزی بینک کی جانب سے ہمیں ابھی تک کوئی ہدایت نہیں ملیں۔

اُن کے بقول جب تک ان کی جانب سے بطور حکومت ایک واضح طریقۂ کار نہیں ملتا افغانستان کی تاجر برادری کچھ نہیں کر سکتی۔

'پاکستانی تاجروں کے لیے افغانستان سے تجارت کے زیادہ مواقع ہیں'

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر انجنیئر دارو خان اچکزئی کہتے ہیں کہ ایران کے مقابلے میں پاکستانی تاجروں کے لیے بارٹر ٹریڈ کے ذریعے افغانستان کے ساتھ کاروبار کرنے کے زیادہ مواقع ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام سے ہونے والی حالیہ گفتگو میں اُمید ہے کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان بارٹر ٹریڈ فروغ پائے گی۔

دارو خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ "ہم تو چاہتے ہیں کہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک اس کو بڑھایا جائے۔ افغانستان کے ساتھ تو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کی شکل میں 1965 سے ہمارا معاہدہ ہے جس نے 2010 میں افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کی شکل اختیار کر لی ہے۔"

'مسئلہ بارڈر پر سہولیات کا بھی ہے'

دارو خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ مسئلہ تاجر برادری کے لیے سہولیات کا بھی ہے کیوں کہ بارٹر ٹریڈ کے لیے زمینی حقائق سے وہ آگاہ نہیں ہیں اور فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس دوران کیا عملی مشکلات پیش آئیں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ " ایک بات تو ہے کہ آئٹم ٹو آئٹم بارٹر ٹریڈ کے لیے الگ الگ منڈیوں کا قیام کیسے ممکن ہو گا؟ سب سے اہم بات یہ کہ بارڈر پر انتظامات کرنے ہوں گے کہ جہاں ہمیں کریڈٹ اور بیلنس کا نظام فراہم کیا جائے۔"

اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ برآمدات کا ہے۔ ہم کیا برآمد کرتے ہیں کہ جس کی پڑوسی ممالک اور عالمی سطح پر ڈیمانڈ ہے۔ ان تمام ممالک میں افغانستان ہی واحد ملک ہے جہاں ہماری سب سے زیادہ امپورٹ ایکسپورٹ پارٹنرشپ رہی ہے۔

افغان تاجر رہنما خان جان الکوزے کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں کا رُجحان بھی اب ایران کی طرف ہے اور اس کی بنیادی وجہ پاک افغان سرحد پر سہولیات کا فقدان ہے جس کے باعث وقت اور پیسہ دونوں زیادہ لگتا ہے۔

پاکستان کی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بارڈر پر سہولیات فراہم کرنا اُن کی اولین ترجیح ہے اور اس حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ایک مسئلہ الیکٹرانک امپورٹ فارمز کا بھی ہے۔ افغان تاجر برادری کا کہنا ہے کہ انہیں اس کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

افغان تاجروں کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان کی جو صورتِ حال ہے اس میں طالبان حکومت نہیں چاہتی کہ ڈالرز ملک سے باہر جائیں۔ حال ہی میں انہوں نے کوئلے کی ایکسپورٹ پر ٹیکس کی شرح بھی کم کردی ہے تاکہ زرِمبادلہ افغانستان آئے۔

اب طورخم پر یا تو افغانستان سے سوپ اسٹون کے سفید پاؤڈر اور یا کوئلے کے ٹرک نظر آتے ہیں یا پھر پاکستان سے سبزیوں اور خوردنی اشیا کی گاڑیاں بارڈر کراس کرتے افغانستان جاتی نظر آتی ہیں۔

ان بڑے بڑے کنٹینرز کے مزدوروں نے اب یہاں سے رخ موڑ لیا ہے جس راستے پر اربوں ڈالرز کا کاروبار ہوتا تھا اب چند ملین ڈالرز تک سکڑ گیا ہے جب کہ کارخانو مارکیٹ اب چین کی بنی اشیا سے بھر چکی ہے۔

بچپن میں قبائلی ضلع خیبر کی دکانوں کو روسی اشیا سے بھرے دیکھا پھر امریکہ اور مغرب کی اشیا نے اس مارکیٹ کا رخ کیا اور اب چین کا سامان ہر طرف نظر آتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بارٹر ٹریڈ کے حوالے سے توقعات تو بہت ہیں لیکن پاکستان اور افغانستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ڈالرز کا حصول ہو گا جب کہ سرحد پر اس حوالے سے مناسب انتظامات کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔


بارٹر ٹریڈ کیا ہے؟

یہ کاروبار کا ایک قدیم طریقۂ کار ہے جب اشیا کی قیمت اور روپے کا تصور نہیں تھا۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر انسان آپس میں اشیا کا تبادلہ کرتے تھے۔ مثلاً اگر کسی شخص کے پاس بکریاں تھیں اور دوسرے کے پاس غلہ تو ضرورت کے حساب سے بکریاں دے کر غلہ لیا جاتا تھا۔

پھر اس کے تبادلے کے لیے بھی معیار مقرر کیے گئے۔ اب بھی مختلف تاجروں اور ممالک کے درمیان بارٹر کا تصور موجود ہے۔ روس اور بھارت کے درمیان بارٹر ٹریڈ کی ایک تاریخ موجود ہے۔

خان جان الکوزے کہتے ہیں کہ سوویت یونین کے ساتھ افغانستان کی بارٹر ٹریڈ کی ایک طویل تاریخ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ہم ماضی میں روس کو بارٹر ٹریڈ کے تحت بھرپور برآمدات کرتے رہے ہیں اور وہاں سے بھی بھاری تعداد میں اشیا بدلے میں درآمد کرتے رہے ہیں۔"

اُن کے بقول اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے ہی مقامی تاجروں کے درمیان بارٹر ٹریڈ کا ایک طریقۂ کار موجود ہے۔ لیکن اس کو خالصتاً بارٹرٹریڈ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اس میں حوالے کے ذریعے مقامی کرنسی کا لین دین ہوتا ہے۔

خان جان الکوزے کا کہنا تھا کہ یکم جون کو بارٹر ٹریڈ کے لیے باقاعدہ ایک ایس آر او جاری ہوا ہے۔

ایس آر او کیا ہے؟

وزارتِ تجارت کی جانب سے ایس آر آوز برآمدات و درآمدات کے حوالے سے جاری کیے جاتے ہیں جو ایک مخصوص عمل کے حوالے سے قواعد و ضوابط تشکیل دینے کی وضاحت کرتے ہیں۔

یکم جون کو جو ایس آر او جاری کیا گیا وہ بی ٹو بی بارٹر ٹریڈ ایس آر او نمبر 642 کے نام سے جاری کیا گیا ہے۔ اس ایس آر او کے پارٹ ون کے مطابق پاکستان، افغانستان، ایران اور روس کو 26 اشیا برآمد کر سکے گا۔ اس میں کھیلوں کا سامان، سرجری کا سامان، مچھلی، گوشت، فرنیچر ، سبزیاں اور پھل شامل ہیں۔

اس طرح پارٹ ٹو میں افغانستان سے درآمدی 10 قسم کی اشیا کی اجازت دی گئی ہے۔ اس میں پھلوں کے علاوہ کوئلہ، کاٹن اور بیج شامل ہیں۔

پارٹ تھری میں ایران سے معدنیات، خام تیل، ایل پی جی اور ایل این جی درآمد کی جا سکتی ہے۔ پارٹ فور میں روس سے بارٹر کے تحت 10 قسم کی اشیا کی اجازت دی گئی ہے جس میں پیٹرول، ایل این جی، ایل پی جی اور اسٹیل شامل ہیں۔

پاکستان، افغانستان، ایران اور روس بارٹر ٹریڈ کی طرف کیوں آئے؟

چین کی جانب سے سعودی ایران تعلقات میں بہتری اور پھر ایرانی صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی بلوچستان سے ملحقہ پاک ایران سرحد پر روزگار مارکیٹ کے افتتاح کو اس خطے میں تبدیلیوں کا آغاز سمجھا جا رہا ہے۔ طورخم کے زمینی راستے سے ازبکستان سے پاکستان کو ایل پی جی کی فراہمی اور پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان مسلسل رابطوں کو بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

کچھ حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ روس، چین، ایران جیسے ممالک پر مشتمل ایک نیا بلاک بننے جا رہا ہے اور اس بلاک کی کوشش ہے کہ خطے میں امن واستحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کرتے ہوئے آپس میں کاروبار کو بڑھایا جائے۔

بعض ماہرین کے مطابق افغانستان، ایران اور روس پر پابندیوں کے باعث یہ ممالک بارٹر ٹریڈ پر رضامند ہوئے ہیں اور پاکستان کی اپنی اقتصادی حالت نے بھی پاکستان کو بارٹر ٹریڈ کی طرف راغب کیا۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

XS
SM
MD
LG