انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان جاری ایشز سیریز کا آغاز مہمان ٹیم کی کامیابی کے ساتھ ہو تو گیا لیکن آسٹریلوی میڈیا، شائقین اور مبصرین نے پہلے ٹیسٹ کے بعد انگلش پیسر اولی روبنسن کو ان کے بیانات کی وجہ سے 'اینیمی نمبر ون' قرار دے دیا ہے۔
برمنگھم میں کھیلے گئے میچ کے دوران اولی روبنسن نے نہ صرف آسٹریلوی اوپنر عثمان خواجہ کو آؤٹ کرنے کے بعد جملے کسے بلکہ پریس کانفرنس میں اپنی بد کلامی کا دفاع بھی کیا۔
روبنسن نے ماضی میں بھی رکی پونٹنگ کی جانب سے 'سلیجنگ' یعنی مخالف کھلاڑیوں کو پریشان کرنے کے لیے بدکلامی کی تکنیک کی مثال دی، وہیں انہیں سابق آسٹریلوی کپتان کے ساتھ ساتھ میتھیو ہیڈن نے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق اگر اولی روبنسن میچ پر توجہ دیتے تو شاید انگلش ٹیم شکست نہ کھاتی۔
یہ پہلا موقع نہیں جب کسی کھلاڑی کی جانب سے میچ کے دوران یا پھر میچ کے بعد کہا گیا فقرہ الٹا انہی کے گلے پڑ گیا ہو۔
ماضی میں کئی نامور کھلاڑیوں کو اپنی بد مزاجی کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
کسی کو میدان پر کسا گیا فقرا مہنگا پڑا تو کسی کو جواب میں آنے والے جملے نے لاجواب کر دیا۔
ان کھلاڑیوں میں ٹیسٹ کرکٹ کے سب سے کامیاب بلے باز سر ڈان بریڈمین کے ساتھ ساتھ انگلینڈ کے این بوتھم ، پاکستان کے جاوید میانداد اور آسٹریلیا کے مارک وا بھی شامل ہیں۔
امپائر نے لا جواب کر دیا
کرکٹ کے میدان میں فقرے بازی کا آغاز نیا نہیں ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کے پہلے اسٹار انگلینڈ کے ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس نے سب سے پہلے یہ کام انجام دیا تھا۔
مصنف گرشن پورٹنوئی اپنی کتاب 'وائی آر یو سو فیٹ' میں وہ لکھتے ہیں کہ ڈبلیو جی گریس کو ایک مقامی میچ کے آغاز میں اس وقت مخالف فاسٹ بالر نے آؤٹ کیا جب ان کا کھیل دیکھنے لوگوں کی بڑی تعداد آئی ہوئی تھی۔
آؤٹ ہونے کے بعد ڈبلیو جی گریس نے واپس جانے کے بجائے گری ہوئی بیل کو اٹھا کر وکٹ پر رکھا اور بالر سے مڑ کر کہا کہ ’’لوگ میری بیٹنگ دیکھنے آئے ہیں، تمہاری بالنگ نہیں۔‘‘
یوں انہوں نے بیٹنگ کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔
اس بار تو امپائر نے انہیں کچھ نہیں کہا تھا لیکن چند برس بعد جب انہوں نے یہی حربہ دوبارہ استعمال کیا تو امپائر سے کہا کہ ہوا نے بیل زمین پر گرادی تھی۔
امپائر نے انہیں جواب دیا کہ وہ امید کر رہے ہیں کہ یہی ہوا انہیں واپس پویلین لے جانے میں مدد کرے گی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بالرز کو تنگ کرنا نہیں چھوڑا
مصنف گرشن پورٹنوئی کی کتاب 'وائی آر یو سو فیٹ' میں سر ڈان بریڈمین کا ایک مشہور واقعہ درج ہے جس کے مطابق انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بالرز کو لاجواب کرنا نہیں چھوڑا۔
کتاب کے مطابق 1980 کی دہائی میں ایڈیلیڈ میں ایک میچ کھیلا گیا جس میں آسٹریلیا نے اس زمانے کی مضبوط ٹیم ویسٹ انڈیز کے خلاف 515 رنز بنائے جس میں نچلے نمبر پر بیٹنگ کرنے والے میرو ہیوز کے 72 رنز بھی شامل تھے۔
جب دن کے اختتام پر سر ڈان بریڈمین ویسٹ انڈیز کے ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں سے ملنے گئے تو تمام کھلاڑیوں نے ان کا استقبال کیا، سوائے فاسٹ بالر پیٹرک پیٹرسن کے، جنہوں نے لٹل ماسٹر کو دیکھ کر کہا کہ اگر وہ ان کے زمانے میں کھیل رہے ہوتے تو وہ انہیں دو حصے کرکے مار چکے ہوتے۔
ایسے میں سر ڈان بریڈ مین نے انہیں یاد دلایا کہ وہ میرو ہیوز جیسے کمزور بلے باز کو تو آؤٹ نہیں کرسکے، ان کے سامنے پیٹرسن کا ایسا کرنے کا کوئی چانس نہیں تھا۔
این بوتھم کا تحمل سے جواب
کرکٹ کی تاریخ کا مزاحیہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 1980 کی دہائی میں ایشز سیریز کے اوپننگ میچ میں این بوتھم انگلینڈ کی جانب سے بیٹنگ کرنے کریز پر آئے اور آسٹریلوی وکٹ کیپر نے ان کا استقبال کرتے ہوئے پوچھا کہ تمہاری بیوی اور میرے بچے کیسے ہیں؟
کوئی اور کھلاڑی ہوتا تو غصے میں آجاتا لیکن این بوتھم نے آرام سے انہیں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ بیوی ٹھیک ہے لیکن بچے ریٹارڈڈ یعنی ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں۔
جس کے بعد راڈ مارش نے ان سے دوبارہ اس قسم کا سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔
جب جاوید میانداد کو بس کنڈکٹر کہنا مہنگا پڑا
سابق پاکستانی کپتان جاوید میانداد نے دنیا کی ہر ٹیم کے خلاف رنز تو بنائے ہی تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر دورے پر مخالف ٹیم کے کسی نہ کسی کھلاڑی سے الجھ پڑتے تھے۔
ایک دورے پر انہوں نے آسٹریلیا کے فاسٹ بالر میرو ہیوز کو میچ کے دوران 'موٹا بس کنڈکٹر' کہہ کر انہیں پریشان کرنے کی کوشش کی تھی۔
لیکن اپنی گھنی مونچھوں کی وجہ سے مقبول فاسٹ بالر نے اس بات کا جواب بھی فیلڈ پر ہی دیا ۔
انہوں نے جاوید میانداد کو آؤٹ کرنے کے بعد ان کے پاس جاکربس کا ٹکٹ مانگا جس پر جاوید میانداد ہی الٹا پریشان ہوگئے۔
ویو رچرڈز کی حاضر دماغی
انگلش فاسٹ بالر گریگ تھامس نے ویسے تو زیادہ ٹیسٹ میچز نہیں کھیلے لیکن کاؤنٹی کرکٹ میں ان کی بڑی دہشت تھی۔
ایک ایسے ہی کاؤنٹی میچ میں ان کی ایک گیند کو ویسٹ انڈیز کے ویو رچرڈز کھیل نہ سکے جس پر پیسر نے انہیں جاکر بتایا کہ گیند کا رنگ لال ہوتا ہے۔ وہ گول ہوتی ہے اور اس کا وزن پانچ آؤنس ہوتا ہے۔
ویو رچرڈز نے اس بات کا جواب اگلی ہی گیند کو گراؤنڈ سے باہر پھینک دیا، جب گیند باؤنڈری کے اوپر سے جا رہی تھی تو ویسٹ انڈین بلے باز نے جاکر گریگ ٹامس سے کہا کہ تمہیں چوں کہ اچھی طرح معلوم ہے کہ گیند کیسی نظر آتی ہے۔ اس لیے جاکر اسے ڈھونڈ لو۔
بھارت کے خلاف عامر سہیل کی غیر ذمہ داری
بلے باز اور بالرز کے درمیان نوک جھوک تو چلتی ہی رہتی ہے لیکن 1996 کے ورلڈ کپ کے دوران پاکستان کے عامر سہیل اور بھارت کے وینکاٹیش پرساد کے درمیان ہونے والا مکالمہ بہت کم لوگ بھول سکے ہیں۔
اس کوارٹر فائنل میچ میں عامر سہیل اور سعید انور نے پاکستان کو ایک اچھا آغاز فراہم کیا لیکن عامر سہیل، جو اس میچ میں قومی ٹیم کی قیادت بھی کررہے تھے، ایک چوکا مارنے کے بعد مخالف بالر سے الجھ پڑے اور اشارے سے کہا کہ باؤنڈری کے پار سے جاکر گیند لے آؤ۔
اس بات کا بھرپور جواب وینکاٹیش پرساد نے اگلی ہی گیند پر عامر سہیل کو بولڈ کرکے دیا اور اس وکٹ کے بعد پاکستان کی بیٹنگ سنبھل نہ سکی اور ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔
جیمز اورمنڈ کا مارک وا کو جواب
انگلینڈ کے فاسٹ بالر جیمز اورمنڈ کو ان کی بالنگ کی وجہ سے تو شاید کوئی یاد نہیں کرتا لیکن ایشز سیریز کے دوران انہوں نے آسٹریلوی کھلاڑی مارک وا کو ایک ایسا جواب دیا تھا جسے کرکٹ کے مزاحیہ فقروں میں منفرد مقام حاصل ہے۔
میچ کے دوران مارک وا نے ، جن کے جڑواں بھائی اسٹیو وا اس وقت آسٹریلیا کے کپتان تھے، حسبِ عادت بیٹنگ کے لیے آنے والے بلے باز سے کہا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں کیا کررہے ہیں؟ وہ تو انگلینڈ کی نمائندگی کے بھی قابل نہیں۔
جس پر اورمنڈ نے جواب دیا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ انگلینڈ کی ٹیسٹ ٹیم کے قابل نہ ہوں لیکن کم ازکم وہ اپنے خاندان میں تو سب سے اچھے کھلاڑی ہیں۔
ناصر حسین ہنسنے پر مجبور
آسٹریلوی وکٹ کیپر این ہیلی کو ان کی وکٹ کے پیچھے کمالات کے ساتھ ساتھ ان کی سلیجنگ کی وجہ سے بھی شہرت حاصل تھی۔
ایک میچ میں جب ناصر حسین انگلینڈ کی جانب سے بیٹنگ کر رہے تھے اور آسٹریلوی قائد اسٹیو وا انہیں آؤٹ کرنے کے لیے فیلڈ سیٹ کررہے تھے، تو انہوں نے رکی پونٹنگ سے کہا کہ وہ ناصر حسین کی ناک کے نیچے کھڑے ہوں۔
اب ناصر حسین کی ناک دوسرے کھلاڑیوں کے مقابلے میں تھوڑی مختلف ہے۔ اسی لیے اسٹیو وا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جب این ہیلی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ وہ تین میل کے علاقے میں کہیں بھی کھڑے ہوجائیں؟
تو ناصر حسین سے رہا نہیں گیا اور مسکرانے کی وجہ سے ان کی توجہ بیٹنگ سے ہٹ گئی اور وہ تھوڑی دیر بعد ہی آؤٹ ہوگئے۔
شین وارن کا منصوبہ
ایک مرتبہ ناصر حسین کا سامنا ہوا ون ڈے میچ میں آسٹریلیا کے شین وارن سے۔
سال 1999میں سڈنی کے مقام پر کھیلے گئے اس میچ میں ناصر حسین اچھی بیٹنگ کر رہے تھے اور انگلینڈ کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے انہیں 10 اوورز میں 5 رنز فی اوور سے بھی کم اوسط درکار تھی۔
ایسے میں شین وارن نے ناصر حسین کو مخاطب کرکے کہا کہ اس موقعے پر وہ آؤٹ ہونے کی کوشش نہ کریں تو انگلینڈ جیت جائے گا۔
جس کا جواب ناصر حسین نے ایک چھکا مار کر دیا۔
کوئی اور بالر ہوتا تو اس کی توجہ ہٹ جاتی لیکن شین وارن نے انگلش کپتان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شاباش، یہی طریقہ ہے میچ جیتنے کا۔
یہاں ناصر حسین کی توجہ ہدف سے ہٹ گئی اور انہوں نے شین وارن کو ایک اور چھکا مارنے کی کوشش کی۔
اس کے نتیجے میں انہیں ایڈم گلکرسٹ نے اسٹمپ کرکے انہیں واپس پویلین بھیج دیا اور آسٹریلیا نے انگلینڈ کو شکست دے کر میچ 10 رنز سے جیت لیا۔
شین وارن کو مشکل کا سامنا
جنوبی افریقہ کے بلے باز ڈیرل کلینن کو شین وارن کا بنی کہا جاتا تھا کیوں کہ جب جب وہ شین وارن کا سامنا کرتے تھے، آؤٹ ہوجاتے تھے۔
ورلڈ کپ 1999 سے قبل کلینن نے آسٹریلوی بالر کا سامنا کیا تو شین وارن نے انہیں بتایا کہ وہ ان کی وکٹ لینے کے لیے دو سال سے بے چین تھے۔
لیکن میگا ایونٹ کے سپر سکس میچ میں جنوبی افریقی بلے باز اچھی تیاری کے ساتھ آئے تھے اور انہوں نے شین وارن کو جواب دیا کہ لگتا ہے کہ تم نے یہ دو سال صرف کھاتے ہوئے گزارے۔
اس کے بعد شین وارن کی توجہ وکٹ لینے سے زیادہ اپنے وزن پر چلی گئی اور ڈیرل کلینن نے میچ میں 60 گیندوں پر 50 رنز بنائے۔
اس میچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف کامیابی آسٹریلیا کو ملی تھی۔
برائن مک ملن کی دھمکی
آنجہانی آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن صرف ڈیرل کلینن کو ہی پریشان نہیں کرتے تھے بلکہ انہی کے ٹیم میٹ آل راؤنڈر برائن مک ملن بھی شین وارن کی بالنگ نہیں سمجھ پاتے تھے۔
ایک میچ میں شین وارن نے حریف بلے باز سے کہا کہ وہ اپنی اگلی گیند کے بارے میں انہیں پہلے سے بتا دیں گے، لیکن مک ملن پھر بھی اسے نہ کھیل سکے۔
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا اننگز کے دوران مک ملن نے شین وارن سے جاکر کہا کہ اگلے مہینے وہ جنوبی افریقہ آتے ہوئے محتاط رہیں کیوں کہ وہاں روزانہ کئی افراد لاپتا ہو جاتے ہیں اور ایک اور فرد کی گمشدگی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اس بات نے شین وارن کو اتنا پریشان کیا کہ وہ اگلے اوور میں اس اعتماد سے بالنگ نہیں کرسکے جس سے وہ کررہے تھے۔
جب کپتان مارک ٹیلر نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو شین وارن نے انہیں مک ملن کی دھمکی کے بارے میں بتاتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ واقعی سچ کہہ رہا تھا؟
اسپیشلسٹ فیلڈر کہنا ٹیم کے خلاف چلا گیا
سال 2006 میں ہونے والی ایشز سیریز میں انگلش ٹیم کو میزبان آسٹریلیا نے ٹف ٹائم دیا لیکن مہمان ٹیم کو ایک موقع ملا تھا سیریز میں واپس آنے کا، جسے کیون پیٹرسن نے ضائع کر دیا۔
میلبرن میں کھیلے گئے میچ میں جب میزبان ٹیم کی پہلی پانچ وکٹیں 84 رنز پر گر گئی تھیں تو اینڈریو سائمنڈز وکٹ پر آئے جن کا استقبال کیون پیٹرسن نے 'یہ آگیا اسپیشلسٹ فیلڈر' کہہ کر کیا۔
یہ سننا تھا کہ اینڈریو سائمنڈز کو غصہ آگیا لیکن انہوں نے زبان سے جواب دینے کے بجائے اپنے بیٹ کا سہارا لیا اور میچ میں 156 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگلینڈ کو میچ میں ایک اننگز کے مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔