رسائی کے لنکس

کیا اپوزیشن کا اتحاد ’انڈیا‘ بی جے پی کو شکست دے سکے گا؟


بھارت کی حزبِ اختلاف کی 26 جماعتوں کی جانب سے ’انڈیا‘ (انڈین نیشنل ڈیولپمینٹل انکلوسیو الائنس) نام کے اتحاد کو اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔

سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ کیا اپوزیشن کا اتحاد ’انڈیا‘ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اتحاد ’این ڈی اے‘ (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں شکست دینے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں۔

مبصرین کے مطابق کئی وجوہات کی بنا پر اپوزیشن کے اتحاد کا نام ’انڈیا‘ رکھا گیا ہے۔ اپوزیشن نے ایک تیر سے کئی نشانے سادھے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ اس کا یہ داؤ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کے آگے کارگر ثابت ہوتا ہے یا پِٹ جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن نے بی جے پی کے قوم پرستی کے پلیٹ فارم پر ہی اسے چیلنج دینے کی تیاری کی ہے۔

تجزیہ کار اس حوالے سے کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہیں کہ بی جے پی کے خلاف لڑائی عوامی آواز کے دفاع اور ملک کے بنیادی نظریے کے تحفظ کی لڑائی ہے۔ واضح رہے کہ راہل گاندھی نے نام کے اعلان کے بعد ہندی میں ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’بھارت متحد ہوگا تو انڈیا جیتے گا‘۔


حزب اختلاف کی ان جماعتوں نے اگلے پارلیمانی انتخابات کے لیے ایک مشترکہ ٹیگ لائن ’جیتے گا بھارت‘ کو حتمی شکل دی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اتحاد کا نام ’انڈیا‘ رکھنے کی تجویز راہل گاندھی کی تھی۔ اسے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی صدر ممتا بنرجی کے سامنے پیش کیا گیا۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد اسے منظور کر لیا گیا۔

رپوررٹس کے مطابق جب اس نام کا اعلان کیا گیا تو بہار کے وزیر اعلیٰ اور جنتا دل (یونائٹڈ) کے رہنما نتیش کمار اور بائیں بازو کے رہنما سیتا رام یچوری نے مخالفت کی اور کہا کہ اتحاد کا نام انڈیا کیسے رکھا جا سکتا ہے۔

اجلاس کے اگلے روز بدھ کو جنتا دل (یونائٹڈ) کے صدر للن سنگھ نے ایک بیان میں ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا کہ نتیش کمار ناراض ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نتیش نے ہی اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا ہے وہ کیسے ناراض ہو سکتے ہیں۔

اپوزیشن کا ماسٹر اسٹروک؟

متعدد تجزیہ کار اس نام کو اپوزیشن کا ماسٹر اسٹروک قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق بی جے پی یا وزیرِ اعظم نریندر مودی کے لیے انڈیا کی مخالفت کرنا یا اس کے خلاف بیان دینا آسان نہیں ہو گا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار رادھیکا راماسیشن کہتی ہیں کہ راہل گاندھی نے ’بھارت جوڑو انڈیا‘ کا نعرہ دیا ہے جو بہت مناسب ہے۔ ورنہ بی جے پی کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ انڈیا برطانوی سامراج کی یاد دلاتا ہے جب کہ بھارت ہماری تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے خیال میں دونوں ناموں کو ایک ساتھ جوڑنا بہت ضروری تھا۔

یاد رہے کہ اس کے سابقہ اتحاد کا نام ’یو پی اے‘ (یونائٹیڈ پروگریسیو الائنس) تھا جو 2004 سے 2014 تک مرکز میں برسراقتدار رہا۔ اس کی سربراہ سونیا گاندھی تھیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں راماسیشن کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کا اور بالخصوص نوجوان نسل کا یہ خیال ہے کہ انڈیا ایک جدید ملک کی جانب اشارہ کرتا ہے جب کہ بھارت ہمیں صدیوں پیچھے لے جاتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ نام نوجوانوں کو بھی اپنی جانب کھینچتا ہے۔

یادر ہے کہ جس وقت بنگلورو میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہو رہا تھا اسی وقت دہلی میں این ڈی اے کا بھی اجلاس چل رہا تھا۔ وزیرِ اعظم مودی نے اپوزیشن اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ منفی سوچ پر قائم اتحاد کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ این ڈی اے تیسری بار مسلسل کامیابی حاصل کرے گا۔

لیکن انھوں نے اپوزیشن اتحاد کا نام نہیں لیا۔ جب کہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے اپوزیشن اتحاد کو ’بھان متی کا کنبہ‘ قرار دیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بھان متی کا کنبہ تو این ڈی اے کو کہنا چاہیے۔

رادھیکا راما سیشن کے خیال میں اگرچہ اس اتحاد میں بی جے پی سمیت کئی پارٹیاں ہیں لیکن ان میں سے کئی پارٹیوں نے 2019 میں الیکشن ہی نہیں لڑا تھا۔ کئی پارٹیوں کا ایک بھی نمائندہ نہ تو کسی اسمبلی میں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں ہے۔

ان کے خیال میں بی جے پی کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اب صرف وزیرِ اعظم مودی کے نام پر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ اس لیے اس نے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو اکٹھا کرکے اپنی گنتی بڑھائی ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے ’انڈیا‘ نامی اتحاد کے اعلان کے بعد آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ برطانوی حکمرانوں نے بھارت کا نام انڈیا رکھا تھا اور اب لڑائی نوآبادیاتی وراثت سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے ہونی چاہیے۔

اس پر کانگریس کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے کہا کہ انھیں یہ بات وزیرِ اعظم مودی کو بتانا چاہیے جنھوں نے اپنے پروگراموں کے نام اسکل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور ڈیجٹل انڈیا رکھا ہے۔

بی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج امت مالویہ نے بھی اپوزیشن اتحاد کی مخالفت کی لیکن انھوں نے بھی ’انڈیا‘ کا نام نہیں لیا۔ البتہ یہ کہا کہ نام بدلنے سے فطرت نہیں بدل جاتی۔

سینئر صحافی اور روزنامہ ہندوستان ٹائمز کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما نے ایک یو ٹیوب چینل ڈبیٹ میں کہا کہ اپوزیشن اتحاد کا نام ’انڈیا‘ صرف نام نہیں ہے بلکہ ایک بیانیہ ہے۔ یہ بیانیہ آگے چل کر انڈیا کے بجائے بھارت میں تبدیل ہو جائے گا۔

سینئر صحافی آدتیہ مینن کے خیال میں اب تک کی سیاسی صورت حال یہ تھی کہ بی جے پی بیانیہ طے کرتی تھی اور اپوزیشن کی نظر سیٹوں کی گنتی پر ہوتی تھی۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ الٹ گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں اتحادوں کے لیے مشکل گھڑی اس وقت آئے گی جب انھیں حلیف جماعتوں کے ساتھ نشستوں پر مفاہمت کرنا ہو گی۔

ان کے مطابق کانگریس کی لڑائی مغربی بنگال میں ٹی ایم سی سے، اترپردیش میں سماجوادی پارٹی سے اور دہلی میں عام آدمی پارٹی سے ہے۔ ممتا بنرجی، اروند کیجری وال اور اکھلیش یادو نہیں چاہیں گے کہ کانگریس ان ریاستوں میں ان کے خلاف لڑے۔

رادھیکا راماسیشن کہتی ہیں کہ بی جے پی کے لیے این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کو سیٹوں کے انتظام پر مطمئن کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس میں شامل چھوٹی پارٹیوں کے اپنے عزائم ہیں جو آڑے آئیں گے۔ دراصل دونوں اتحادوں کا اصل امتحان نشستوں کی تقسیم کے وقت ہوگا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا احساس اپوزیشن جماعتوں کو اور کانگریس کو بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلورو کے اجلاس میں راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس وزیرِ اعظم کے عہدے پر اصرار نہیں کرے گی۔ کانگریس صدر ملک ارج کھڑگے نے بھی کہا کہ کانگریس کی دلچسپی وزیرِاعظم کے عہدے میں نہیں ہے۔

تجزیہ کار اسے ایک مثبت اشارہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اپوزیشن وزیرِ اعظم کے عہدے کے امیدوار کے بغیر الیکشن لڑے گا۔ وزیرِ اعظم کون ہو یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’انڈیا‘ کو اپنا پروگرام عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا تاکہ رائے دہندگان کے سامنے اس کی پالیسی و پروگرام کی وضاحت ہو سکے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG