یو کرین پر روس کے حملے کو سترہ ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران روس نے یو کرین کے علاقے کے پانچویں حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور دونوں جانب جنگ کے نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جون میں جب سے یو کرین نے روس کے قبضے سے اپنا علاقہ واپس لینے کے لیے جوابی حملے شروع کیے ہیں، یو کرین کے سب سے بڑے میکنیکوف ہسپتال کے سرجن کہیں زیادہ مصروف ہو گئے ہیں اورہر رات 50 سے 100 تک آپریشن کرتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق مشرقی یو کرین کا ایک ہسپتال جنگ کی ہولناکیوں کا بھرپور نقشہ پیش کرتا ہے۔ یہاں رات کے وقت سٹریچرز کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے جن پر جنگ میں زخمی ہونے والے فوجیوں کو علاج کے لیے لایا جاتا ہے۔
جنگ میں زخمی ہونے والے یہ فوجی عام مریضوں جیسے نہیں ہوتے۔ ان کے چہرے سیاہ اور بارود سے اٹے، جذبات سے عاری آنکھیں آسمان پر لگی اور ہاتھ پاؤں پٹیوں میں جکڑے ہوئے ہوتےہیں ۔
میکنیکوف ہسپتال میں اکثر مشرق، شمال کے جنگلوں اور جنوب کے اگلے مورچوں کے زخمی لائے جاتے ہیں اور اکثر انہیں سرجری کی ضرورت ہوتی ہے اور تعداد ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
ڈاکٹر سرہی ریزنکو، میکنکوف ہسپتال کے چیف ڈاکٹر ہیں۔ 59 سالہ ڈاکٹر تھکن سے بھرپور مسکراہٹ میں درد چھپاتے ہوئے ہسپتال میں لائے گئے زخمیوں کے علاج میں مصروف رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،"ہمارے پاس سرجری کے لیے 50 آپریٹنگ رومز ہیں اور وہ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔"
دن کے اوقات میں ہسپتال میں معمول کے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ یہاں کینسر سے لے کر دیگر ہر بیماری کے مریض لائے جاتے ہیں لیکن رات ہوتے ہی ہسپتال کا ماحول بدل جاتا ہے اور معمول میں ہولناکی اور سخت ہنگامی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
زخمی فوجی آنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔ ہر 15 منٹ بعد ایک زخمی۔۔اکثر کو ہوش نہیں ہوتا۔
ہال میں متفکر آوازیں سنائی دیتی ہیں۔۔۔ 'بہت خون بہہ رہا ہے۔۔۔سر میں بم کا ٹکڑا لگا ہے۔۔۔سانس کی نالی جل گئی۔۔۔۔ٹانگیں زخمی ہیں۔۔۔۔بازو میں گولی لگی ہے۔۔۔۔۔ جلدی کرو'۔ "
اور پھر سرجن اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔۔۔سرجری کے بعد ان فوجیوں کو ریکوری کے لیے کہیں اور بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ اگلی رات پھر اسی عمل کے لیے ہسپتال میں گنجائش ہونا ضروری ہے۔
ڈاکٹر تتیانا تیشینا ہسپتال میں اینستھیسیولوجسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں ہمیں احساس ہے کہ یہ سب ہمیں کرنا ہی ہے۔
دھیمے لہجے میں بات کرتی اس ڈاکٹر کے چہرے پر ایک عزم تھا۔ انہوں نے کہا،"یہ بہت مشکل ہے۔۔۔ہم اپنے طور پر اگلے محاز پر ڈٹے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا۔"
یو کرینی فوجی 1500 کلو میٹر طویل جنگی علاقے میں کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں مگر روسی قبضے والے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں ان کا جوابی حملہ بہت سست رفتار ہے۔
دوسری طرف روس نے یو کرین کے شمال میں، لائمن کے قریب اور کریمینا کے جنگلوں میں یو کرینی فوجیوں کو محدود کرنے کے لیے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
اگلے محاذوں پر لڑنے والے یو کرینی فوجی کہتے ہیں کہ روسی گولہ باری اتنی شدید ہے کہ وہ ششدر رہ جاتے ہیں، خاص طور پر زاپو ریا کے جنوبی علاقے میں جہاں سرنگیں صاف کرنے کے عمل میں وہ دشمن کے فائر کی زد میں آجاتے ہیں۔
اولے ہالہ 22سالہ فوجی اس ماہ لائمن میں روسی ٹینک کا گولہ لگنے سے زخمی ہوئے۔ ان کے پیٹ اور ٹانگوں میں شدید زخم آئے۔ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ان کے لیے بات کرنا بے حد مشکل تھا۔ انہوں نے بمشکل بتایا کہ ان کی پلاٹون نے ٹینک آتے ہوئے دیکھا مگر اس سے پہلے کہ وہ گرنیڈ لانچر تک پہنچتے، گولہ باری نے انہیں آلیا۔
ہالہ نے بتایا،"ہر روز 24 گھنٹے مسلسل فائرنگ ہوتی ہے۔ اگر روسی انفنٹری سے نہیں تو آرٹلری سے۔ کبھی رکتی نہیں۔"
یو کرین کی طرح میکنیکوف ہسپتال بھی 200 سال سے زیادہ عرصے سے قائم ہے۔ اور گزشتہ ایک عشرے سے جنگ کے مطابق اس میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
ڈونیٹسک کے علاقے میں لڑتے ہوئے شدید زخمی ہونے کے بعد میکسم کو میکنیکوف ہسپتال لایا گیا۔ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ان کی آنکھ کھلی تو ان کی بیوی ان کے سامنے تھی۔
میکسم کے منہ سے بے اختیار نکلا،"میں تمہیں دوبارہ دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ "
میکسم کی بیوی یہ جاننے کے بعد کہ انہیں اس ہسپتال میں سرجری کے لیے لایا گیا ہے، اپنی بہن کے ساتھ سفر کر کے وہاں پہنچی تھی۔
ڈاکٹر مائی کیتا لامبروزو کی آپریشن ٹیبل پر موجود فوجی کے سر میں بم کا ٹکڑا لگا ہے۔۔۔28 سالہ نیورو سرجن کے ماہر ہاتھ تیزی سے اس کے سر سے بم کے ٹکڑے نکالنے میں مصروف ہیں۔۔۔انہیں یہ سب 55منٹ میں مکمل کرنا ہے۔۔۔ یہ ان کا روز کا معمول ہے۔
"میرے لیے یہ بہت اہم ہے"۔۔۔ڈاکٹر لامبروزو کا چہرہ مزید سنجیدہ ہو جاتا ہے۔۔۔وہ فوجی پر جھک جاتے ہیں۔۔۔" یہ ہمارا ہیرو ہے "
(اس خبر میں مواد اے پی سے لیا گیا ہے)