جولائی ختم ہونے سے پہلے ہی سائنس دانوں نے کہہ دیا ہے کہ یہ معلوم انسانی تاریخ کا گرم ترین مہینہ بن چکا ہے۔ انسانی تہذیب نے اس سے زیادہ گرمی کبھی نہیں دیکھی۔ اب بات گلوبل وارمنگ سے آگے نکل رہی ہے۔ زمین تپ نہیں رہی بلکہ دہک رہی ہے۔موسمیات کے عالمی اداروں نے کہا ہے کہ 2023 کا جولائی ایک لاکھ 20 ہزار برسوں کا سب سے گرم مہینہ بن رہا ہے۔
والڈ میٹروجیکل آرگنائزیشن اوریورپی یونین کے موسمیاتی ادارے کوپر نیکس کلائمیٹ چینج سروس نے کہا ہے کہ جولائی کی گرمی سابقہ ریکارڈ توڑنے کی سطح سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔ عمومی طور پر ریکارڈ اس وقت ٹوٹتا ہے جب درجہ حرارت میں ایک ڈگری کے دسویں حصے کے برابر اضافہ ہوجائے۔ لیکن اس ماہ کے دوران ہونے والا اضافہ 2019 میں قائم ہونے والے ریکارڈ سے0.6 ڈگری یعنی ریکارڈ بنانے کے لیے درکار سطح سے چھ گنا زیادہ ہے۔
زمین کو گرم ہونے سے بچانے کے لیے دنیا بھر کے سائنس دانوں نے 2015 میں پیرس میں ایک معاہدہ کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت سے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کر دیا جائے گا ۔ درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے کاربن گیسوں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے گا اور اسے بتدریج کم کرتے ہوئے صفر کی سطح پر لایا جائے گا۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ فیکٹریوں، موٹرگاڑیوں اور انسان کے زیر استعمال دیگر آلات سے خارج ہونے والے دھوئیں میں بڑی مقدار کاربن گیسوں کی ہوتی ہے۔یہ گیسیں کرہ ہوائی کی بلندی پر پہنچ کر زمین سے واپس جانے والی حرارت کا راستہ روک دیتی ہیں جس سے زمین گرم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
زمین پر درجہ حرارت کا توازن قائم رکھنے کا قدرتی نظام یہ ہے کہ دن کے وقت سورج کی گرمی سے زمین کا درجہ حرارت بڑھتا ہے اور رات پڑنے پر زمین سے حرارت خارج ہو کر واپس خلا میں چلی جاتی ہے جس سے کرہ ارض کا درجہ حرارت اعتدال میں رہتا ہے۔
صنعتی ترقی کے آغاز سے پہلے یہ نظام ارب ہا برسوں سے خوش اسلوبی سے چل رہا تھا، لیکن 1760 کے لگ بھگ جب انسان نے پہلی مشین بنائی اور اس نے دھواں اگلنا شروع کیا تو اس سے قدرت کے نظام میں خلل کا بھی آغاز ہو گیا۔ جیسے جیسے فضا میں کاربن گیسوں کی مقدار بڑھ رہی ہے، زمین بھی غصے سے گرم ہوتی جا رہی ہے۔
زیادہ دور پرے کی بات نہیں ہے، گرمیوں میں عموماً درجہ حرارت ریگستانوں اور میدانی علاقوں میں بڑھتا تھا اور ساحلی علاقوں اور پہاڑی مقامات پر موسم معتدل رہتا تھا۔کینیڈا اور یورپ کے اکثر علاقوں میں گھروں میں پنکھے تک نہیں ہوتے تھے لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ اے سی کے بغیر ایک پل گزارنا دشوار ہو گیا ہے۔
اس بار جون اور جولائی میں اتنی گرمی پڑی ہے کہ امریکہ، کینیڈا، یورپ اور جاپان تک میں لوگ چیخ اٹھے ہیں۔ امریکہ کی اکثر ریاستوں میں آجکل روزانہ کی بنیاد پر ’ہیٹ الرٹ‘ جاری ہو رہے ہیں اور لوگوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ گرمی میں باہر نکلنے سے اجتناب کریں اور پانی کا زیادہ استعمال کریں۔
28 جولائی کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں 20 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید گرمی یا گلوگل وارمنگ کے نتیجے میں شدید بارشوں اور سیلابوں کا سامنا ہے۔یہ تعداد ملک کی کل آبادی کا تقریباً 60 فی صد ہے۔ رپورٹ کے مطابق 27 جولائی کو دارالحکومت واشنگٹن، نیویارک اور فلاڈیلفیا میں درجہ حرارت اوسط سے ساڑھے پانچ سے آٹھ درجے سینٹی گریڈ سے زیادہ محسوس کیا گیا۔
یہ دھیان میں رہے کہ درجہ حرارت کی پیمائش دو انداز سے کی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ سکیل پر حقیقی درجہ حرارت کتنا ہے اور دوسرا یہ کہ جو اثرات انسان محسوس کر رہا ہے وہ کتنے درجہ حرارت پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گرمی کے ریکارڈز کا اس تیزی سے ٹوٹنا مستقبل کے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیاں بہت تباہ کن ہوسکتی ہیں، جنہیں ہم گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، شدید بارشوں، سیلابوں، سمندری طوفانوں ، گرمی کی طویل لہروں، خشک سالی اور قحط اور فصلوں کی پیداوار پر منفی اثرات کی شکل میں ابھی سے دیکھ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے نیویارک میں ایک بریفنگ کے دوران نئے خطرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم گلوبل وارمنگ کے دور سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب ہمارے سامنے عالمی سطح پر ز مین کے ابلنے کا منظرنامہ ہے۔
انہوں نے دنیا بھر کے ملکوں پر زور دیا کہ وہ اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے کاربن گیسوں کے اخراج پر قابو پانے اور انہیں صفر تک لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
کاربن گیسوں کا ایک نمایاں بڑا حصہ صنعتی اور ترقی یافتہ ملک خارج کرتے ہیں، جن میں امریکہ اور کئی یورپی اقوام شامل ہیں ۔ لیکن حالیہ برسوں میں چین اور بھارت بھی سب سے زیادہ کاربن گیسیں خارج کرنے والے ملکوں کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ چین اور بھارت میں زیادہ تر بجلی گھر کوئلے سے چلتے ہیں۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 74 غریب ملکوں کا مجموعی طور پر کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ 10 فی صد سے بھی کم ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ماہرین کے تخمینوں کے مطابق پاکستان کا گلوبل وارمنگ میں حصہ 0.4 فی صد سے بھی کم ہے، جب کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں گزشتہ سال کی شدید بارشوں اور سیلابوں سے اسے 30 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
گزشتہ چند برسوں سے ترقی یافتہ ملک معدنی ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی جانب بڑھ رہے ہیں، جن میں بیڑی سے چلنے والی گاڑیاں اور دوسرے برقی آلات میں اضافہ شامل ہے۔ لیکن یہ رفتار خطرے میں اضافے کی رفتار کے مقابلے میں بہت سست ہے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ صرف ٹرانسپورٹ کے ایک چھوٹے حصے کو بجلی پر منتقل کرنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ صورت حال کی سنگینی سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ زمین کو دہکنے اور بھٹی میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے فوری اور وسیع تر اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن اس جانب کوئی واضح پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔
یورپی یونین کے موسمیات کے ادارے کوپرنیکس کے ڈائریکٹر کارلو بونٹیمپو کہتے ہیں کہ صرف خشکی ہی نہیں بلکہ سمندر بھی تیزی سے گرم ہو رہے ہیں جس سے ایل نینو کے قدرتی عمل میں خلل پڑ رہا ہے اور طوفان جنم لے رہے ہیں۔ انٹارکٹیکا میں برف کو پہنچنے والا ریکارڈ نقصان پریشان کن ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے موسم گرم نہیں ہو رہا بلکہ اسے پاگل پن کا دورہ پڑا ہوا ہے۔
(ایسوسی ایٹڈ پریس سے ماخوذ)