سعودی عرب کی سرکاری آئل ریفائنری آرامکو اور پاکستان کے چار سرکاری اداروں نے مل کر گوادر میں گرین فیلڈ ریفائنری لگانے کے منصوبے کے لیے یادداشت پر دستخط کر دیے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ 10 ارب ڈالر لاگت کا ہو گا جس میں پاکستان میں پیٹرو کیمیکل سہولت کے ساتھ کم از کم تین لاکھ بیرل یومیہ خام تیل ریفائن کیا جا سکے گا۔
وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے تیل اور گیس کے بڑے اداروں کی جانب سے نمایاں غیر ملکی سرمایہ کاری ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے قومی معیشت کو اقتصادی ترقی، زرِمبادلہ کی بچت، توانائی کی حفاظت، روزگار کے مواقع اور سماجی ترقی کے فوائد پہنچیں گے۔
اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے چینی فرم کے ساتھ انجینئرنگ، پروکیورمنٹ اور کنسٹرکشن کا معاہدہ بھی الگ سے کیا گیا ہے۔
پاکستان کی خام تیل کو ریفائن کرنے کی اس وقت استطاعت ساڑھے چار لاکھ بیرل روزانہ کی ہے اور یہ 20 ملین یعنی دو کروڑ ٹن سالانہ بنتی ہے۔
لیکن پاکستان میں اس وقت فرنس آئل کی طلب کم ہونے کے باعث اس وقت آئل ریفائنریز صرف ایک کروڑ 10 لاکھ ٹن خام تیل ہی پراسس کر پاتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ 2035 تک پاکستان میں موٹر سپرٹ اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی ڈیمانڈ بڑھ کر 33 ملین یعنی 3 کروڑ 30 لاکھ ٹن سالانہ ہو جائے گی۔
پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
تجزیہ کار ڈاکتر عبدالعظیم کہتے ہیں کہ پاکستان ہر سال تقریباً دو ارب امریکی ڈالر سے زیادہ مالیت کے پیٹرو کیمیکلز کی بڑی مقدار درآمد کر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پیٹرو کیمیکل کی پیداوار کی کوئی بنیادی سہولت موجود ہی نہیں ہے اور ملک میں ایتھائیلین، پروپائیلین جیسے بنیادی پیٹروکیمیکلز کی پروڈکشن نہیں ہوتی اور اس سے منسلک کچھ ہی اشیا یہاں تیار ہو پاتی ہیں۔
پیٹرو کیمیکل وہ کیمیائی مصنوعات ہیں جن کا ماخذ پیٹرولیم ہوتی ہیں۔ پیٹرو کیمیکلز دوسرے درجے کی مصنوعات ہیں جو ریفائننگ کے عمل کے بعد خام تیل سے حاصل کی جاتی ہیں۔ تاہم اب دنیا میں انٹیگریٹڈ پیٹرو کیمیکل ریفائنری کمپلیکس کے ذریعے خام تیل سے پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ پیٹرو کیمیکلز بھی ایک ہی جگہ پر تیار ہو رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں اب تک یہ سہولت دستیاب نہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کے ساتھ ہی پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ان کیمیکلز کی طلب بھی آئندہ برسوں میں بڑھے گی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں ریفائنری اور پیٹرو کیمیکلز انڈسٹری کو کئی بڑے چیلنجز کا بھی سامنا ہے جس میں بڑے پیمانے پر سرمایے کی ضرورت سرِفہرست ہے۔
پالیسی کی عدم موجودگی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ملک میں گزشتہ 40 برس کے دوران صرف دو آئل ریفائنریز ہی لگ پائی ہیں۔
ریفائنری سیکٹر میں سرمایہ کاری کی کمی سے نہ صرف زرِمبادلہ پر اضافی بوجھ پڑتا ہے بلکہ اس سے درآمدات پر انحصار بھی بڑھتا ہے۔ اس وقت ملک میں پانچ آئل ریفائنریز کام کر رہی ہیں جنہوں نے 2022 میں 1881 ارب روپے کا مجموعی ریونیو کمایا ہے اور ملک کے جی ڈی پی میں اس کا حصہ 2.2 فی صد بنتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اگر اتنی بڑی سرمایہ کاری واقعتاً ہو جاتی ہے تو یہ پاکستان کے لیے اربوں ڈالرز بچانے کے ساتھ معاشی، معاشرتی ترقی، گوادر میں انفراسٹرکچر کی بہتری کے ساتھ دیگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی یہاں راغب کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اب تک کوئی ٹائم فریم نہیں بتایا گیا کہ اس پر کب تک کام شروع ہو گا۔
'منصوبہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے'
ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ پہلے ہی چار سال تاخیر کا شکار ہو چکا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ آئندہ چند برسوں میں یہ منصوبہ حقیقت کا روپ اختیار کرے گا۔ کیوں کہ اس کے لیے ملک میں سیاسی اور سیکیورٹی استحکام، اور پالیسیوں کا تسلسل نظر نہیں آتا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں ریفائننگ سیکٹر کی ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ریفائنریز، پیٹرو کیمیکل کمپلیکس اور موجودہ ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کی جا سکے۔
اُن کے بقول یہ پیش رفت اہم ہے جو درآمد شدہ مصنوعات پر موجودہ بھاری انحصار کو کم کرنے کے لیے مفید ہے جس کے نتیجے میں ملک کا قیمتی زرِمبادلہ بچانے کے ساتھ، توانائی کی ضروریات کا تحفظ بھی ممکن ہو پائے گا۔
خیال رہے کہ 2019 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گوادر میں آئل ریفائنری کے قیام کا معاہدہ طے پایا تھا۔