وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کے اعلان کے بعد انتخابات میں تاخیر کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
منگل کو نجی ٹی وی چینل 'آج نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہونے چاہئیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں مردم شماری کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے۔
رواں برس ڈیجیٹل مردم شماری مکمل ہو گئی تھی، تاہم مشترکہ مفادات کونسل سے اس کے نتائج کی منظوری باقی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر مشترکہ مفادات کونسل نتائج کی منظوری دے دیتی ہے تو پھر الیکشن کمیشن کے لیے یہ لازم ہو گا کہ وہ نئی حلقہ بندیاں کرائے۔
حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا مطالبہ تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہونے چاہئیں جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) پرانی مردم شماری کے تحت ہی انتخابات کی خواہاں ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا تھا کہ نئی مردم شماری کے تحت ہونے والی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کے انعقاد کے لیے چار ماہ درکار ہوں گے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کے بقول نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے لیے حکومت اسے مشترکہ مفادات کونسل میں لے کر جائے گی اور امید ہے کہ معاملات آگے چلیں گے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کا فیصلہ کیا گیا تو انتخابات وقت پر نہیں ہو سکیں گے۔
اس سے قبل وفاقی وزرا یہ کہتے رہے ہیں کہ انتخابات پرانی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔
وفاقی وزیر توانائی اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خرم دستگیر خان نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ آئندہ ہفتے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اتفاقِ رائے نہ ہوا تو آئین اجازت دیتا ہے کہ پرانی مردم شماری کے تحت الیکشن ہوں۔
'نوٹی فکیشن جاری ہو جائے تو پھر حلقہ بندیوں کے بعد ہی الیکشن ہوں گے'
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ اگر مشترکہ مفادات کونسل مردم شماری کا نوٹی فکیشن جاری کر دیتی ہے تو پھر انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے نتائج جاری ہونے کے بعد نوے روز کے اندر الیکشن کرانے کی پابندی ختم ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ جب تک نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو جاتیں اس وقت تک الیکشن نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے آئین و قانون کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔
'یہ خدشات موجود تھے کہ الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے'
سینئر تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے یہ بات پہلی مرتبہ کی گئی ہے کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یہ خدشات پہلے سے پائے جاتے تھے کہ عام انتخابات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں اور وزیرِ اعظم کے اس بیان کے بعد ان شکوک و شبہات کو تقویت ملی ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بدستور موجود ہے اور ایسے میں انتخابات کی طرف جانا مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے مشکل پیدا کرے گا۔
اُن کے بقول ان وجوہات کی بنا پر پہلے سے خدشہ تھا کہ انتخابات اکتوبر، نومبر کے بجائے آئندہ سال ہوں گے۔
'الیکشن کمیشن کو چار ماہ درکار ہوں گے'
انتخابات کے التوا پر بات کرتے ہوئے کنور دلشاد نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو چار ماہ کا اضافی عرصہ درکار ہو گا اور انتخابات نوے دن کی آئینی حدود سے دو ماہ آگے چلے جائیں گے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے یہ بیان یقیناً الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کے بعد ہی دیا ہو گا۔
اُن کے بقول اس حوالے سے جو بھی فیصلہ لیا جائے گا وہ حکومت اور ادارے مشترکہ طور پر ہی لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کا ذمے دار الیکشن کمیشن ہے لیکن اسے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ انتخابات میں التوا کی اجازت سپریم کورٹ سے لینا ہو گی اور اس کے لیے حلقہ بندیوں کا جواز ہی رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ سپریم کورٹ اس جواز کو مناسب سمجھتے ہوئے انتخابات کے التوا کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔
فورم