رسائی کے لنکس

ایرانی میزائل سے یوکرینی طیارے کے 176 مسافروں کی ہلاکت، متاثرہ خاندان تین سال بعد بھی انصاف کے منتظر


تہران کے قریب ایرانی میزائل سے مسافر بردار طیارہ مار گرائے جانے کے بعد امدادی کارکن نعشیں اکھٹی کر رہے ہیں۔ 8 جنوری 2020
تہران کے قریب ایرانی میزائل سے مسافر بردار طیارہ مار گرائے جانے کے بعد امدادی کارکن نعشیں اکھٹی کر رہے ہیں۔ 8 جنوری 2020

کینیڈا نے کہا ہے کہ 2020 میں ایران کی جانب سے یوکرین کا ایک مسافر بردار طیارo مار گرائے جانے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں نے، جن میں کینیڈا کے خاندان بھی شامل ہیں، عالمی فوجداری عدالت سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس بدقسمت فلائٹ کا نام پی ایس 752 تھا جسے ایک ایرانی میزائل نے اس وقت مار گرایا تھا جب 8 جنوری 2020 کو اس نے تہران سے اڑان بھری تھی۔

طیارے کے سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کی تنظیم نے گزشتہ سال ستمبر میں یہ اعلان کیا تھا کہ انہوں نے عالمی عدالت انصاف کے پراسیکیوٹرز کے دفتر میں ایک قانونی عرضداشت داخل کرائی تھی جس میں یوکرینئن انٹرنیشنل ایئرلائنز کے طیارے پر ایرانی میزائل حملے کو مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات میں شامل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

اس حملے میں جہاز میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت ایرانی اور ایرانی نژاد کینیڈین باشندوں کی تھی جو کیف کے راستے کینیڈا جا رہے تھے۔ ایران نے کہا تھا کہ اس کی افواج نے طیارے کو امریکی میزائل سمجھ لیا تھا۔

دی ہیگ میں قائم انٹر نیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹرز کے دفتر نے اس بارے میں کوئی عوامی بیان جاری نہیں کیا کہ آیا اس نے متاثرہ خاندانوں کی تنظیم کی تقریباً 12 ماہ پرانی درخواست کی ابتدائی چھان بین شروع کر دی ہے یا اس کا ارادہ رکھتا ہے ۔

امدادی کارکن تہران کے قریب یوکرینی مسافربردار طیارہ گرائے جانے کے بعد امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ 8 جنوری 2020
امدادی کارکن تہران کے قریب یوکرینی مسافربردار طیارہ گرائے جانے کے بعد امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ 8 جنوری 2020

آئی سی سی ایک مستقل بین الاقوامی عدالت ہے جو روم سٹیچوٹ(آئین روم) نامی ایک معاہدے کے تحت کام کرتی ہے۔ اس عدالت کا دائرہ اختیار نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور جارحیت کے جرم میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات کرنا اور مقدمات چلانا ہے۔

آئی سی سی کے قوانین کے تحت کسی معاملے پر غور کے لیے پراسیکیوٹرز کے دفتر کو یہ تعین کرنا ہوتا ہے کہ آیا اس کے پاس آئی سی سی کے دائرہ کار میں لانے کے لیے جرم سے متعلق کافی شواہد موجود ہیں، آیا یہ جرم حقیقی قومی قانونی کارروائی کے تحت آتا ہے اور آیا اس بارے میں تحقیقات سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور متاثرین کی داد رسی ہو گی۔

عدالت کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ ’’ اگر تحقیقات شروع کرنے کے تقاضے پورے نہ ہوں یا جرائم آئی سی سی کے دائرہ اختیار میں نہ آتے ہوں تو عالمی فوجداری عدالت تحقیقات شروع نہیں کر سکتی۔

29 جولائی کو وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے ایک پیغام میں، برطانیہ میں کینیڈا کے ہائی کمشنر رالف گوڈیل نے خاندانوں کی درخواست کے متعلق کینیڈا کے ایک عہدے دار کا ایک بیان پیش کیا۔

گوڈیل کو مارچ 2020 میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے خصوصی مشیر کے طور پر اوٹوا کی جانب سے فلائٹ پی ایس 752 کو ایرانی میزائل سے گرانے سے متعلق ردعمل دینے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ گوڈیل نے وی او اے کو بتایا کہ انہوں نے 2021 میں لندن میں سفیر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اپنا یہ مشاورتی کردار جاری رکھا ہوا ہے۔

گوڈیل نے لکھا ہے کہ، ’’ آئی سی سی کا آپشن متاثرین کی درخواست پر کھولا گیا تھا۔ اب یہ معاملہ جانچ پڑتال اور تعین کے لیے عالمی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹرز کے پاس ہے‘‘۔

دوسری جانب متاثرہ خاندانوں کی تنظیم کے کینیڈا میں مقیم ترجمان کوروش دوست شناس نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو اوٹوا اور نہ ہی کسی اور حکومت نے آئی سی سی میں درخواست کے حوالے سے ان کی تنظیم کی کھلے عام حمایت کی ہے۔

عالمی فوجداری عدالت کے قوانین اپنے پراسیکیوٹر آفس کو اپنے طور پر یا ان 123 ریاستوں میں سے کسی ایک کی درخواست پر جو آئی سی سی کے قیام سے متعلق معاہدہ روم کی فریق ہیں، تحقیقات شروع کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان ریاستوں میں کینیڈا، برطانیہ اور سویڈن بھی شامل ہیں ، جن کے شہری اس فلائٹ میں مارے گئے تھے۔ان ہلاکتوں کے متاثرین میں شامل چوتھا ملک یوکرین ہے جو معاہدہ روم میں تو شامل نہیں ہے۔ تاہم وہ نومبر 2013 سے اپنے ملک کی حدود میں ہونے والے مبینہ جرائم پر عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرتا ہے۔

مار گرائے جانے والے یوکرینی طیارے کے مسافروں کی نعشیں قطار میں سڑک پر رکھی ہوئی ہیں۔ 8 جنوری 2020
مار گرائے جانے والے یوکرینی طیارے کے مسافروں کی نعشیں قطار میں سڑک پر رکھی ہوئی ہیں۔ 8 جنوری 2020

کینیڈا، برطانیہ ، سویڈن اور یوکرین نے گزشتہ ماہ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) میں ایران کے خلاف الگ الگ قانونی کارروائی شروع کی تھی۔ 4 جولائی کو آئی سی جے کو دی گئی اپنی درخواست میں چاروں ملکوں نے مسافر طیارے کو گرانے کے سلسلے میں ایران پر بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا تھا۔ جب کہ تہران نے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذکورہ ممالک سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں۔

کینیڈا میں متاثرین کے خاندانوں کی تنظیم کے ترجمان دوست شناس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ ممالک عالمی فوجداری عدالت میں ہمارے مقدمے کی حمایت کرنے سے کیوں گریز کر رہے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے مقدمے کو بھلا دیا جائے۔

گوڈیل کا کہنا ہے کہ برطانیہ، کینیڈا، سویڈن اور یوکرین فلائٹ پی ایس 752 کے متاثرین کے خاندانوں کے لیے شفافیت، احتساب اور انصاف کے حصول میں ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن ہم یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ ان قانونی اقدامات کے لیے ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں۔

چاروں ممالک نے کہا ہے کہ انہوں نے عالمی عدالت انصاف سے کہا ہے کہ وہ یہ اعلان کرے کہ ایران نے مانٹریال میں ہونے والے 1971 کے شہریوں کی حفاظت سے متعلق کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔

متاثرہ خاندانوں کی تنظیم نے اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں اٹھانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے ان کا بنیادی مقصد فلائٹ پی ایس 752 کے حقائق کا کھوج لگانا، اس میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا اور ہولناک جرائم کو روکنے میں مدد دینا ہے۔

(ایسوسی ایٹڈ پریس سے ماخوذ)

فورم

XS
SM
MD
LG