بلوچستان کے علاقے تربت میں توہینِ مذہب کے الزام میں ایک اسکول ٹیچر کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی نے نو اگست کو' خاموش' ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
نامعلوم افراد نے عبدالرؤف نامی اسکول ٹیچر کو ہفتے کے روز فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کرتے ہوئے کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔
پولیس کے مطابق اسکول ٹیچر کے قتل کا واقعہ تربت کے علاقے ملک آباد میں اس وقت پیش آیا جب عبدالرؤف مبینہ توہینِ مذہب کے معاملے میں اپنی صفائی پیش کرنے ایک جرگے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔
ایس ایس پی تربت محمد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دفعہ 302 کے تحت پولیس کی مدعیت میں عبدالرؤف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں اسکول انتظامیہ، طالب علموں اور مقامی علماء کو شاملِ تفتیش کرلیا ہے۔
پولیس کے مطابق دو اگست سے سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ تربت میں بولان اسکول اور انگلش لینگویج سینٹر کے ایک استاد عبدالرؤف نے مبینہ طور پر اپنے طالب علموں کے سامنے پیغمبرِ اسلام کی شان میں توہین آمیز کلمات کہے ہیں جس سے علاقے کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس معاملے پر طلبہ نے اسکول کے پرنسپل کو آگاہ کیا۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چار اگست کو اس معاملے کو مقامی علماء کے سامنے پیش کیا گیا جہاں اسکول ٹیچر نے اپنا وضاحتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پیغمبرِ اسلام کی کوئی توہین نہیں کی اور اگر کسی کو ایسا محسوس ہوا ہے تو وہ اس پر معافی چاہتے ہیں۔
بعدازاں علماء نے عبدالرؤف کو پانچ اگست کو مقامی مدرسے میں ایک جرگے کے سامنے اپنا وضاحتی بیان دینے کو کہا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز عبدالرؤف اسکول کے چند دیگر اساتذہ کے ہمراہ بولان لینگویج سینٹر سے ملک آباد کے علاقے میں قائم مدرسہ اشاعت الوحید میں جاری جرگے میں شرکت کرنے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک قبرستان میں پہلے سے گھات لگائے نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔
پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی تھی تاہم ورثا کی جانب سے واقعے پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا اور انہوں نے میڈیا سے بات کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔
تربت کے مکین توہینِ مذہب کے الزام میں اسکول ٹیچر کے قتل کو تربت میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ قرار دے رہے ہیں۔
'بلوچستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے'
ایس ایس پی تربت محمد بلوچ کے مطابق مقتول استاد کا تعلق تربت کے مقامی ذکری فرقے سے بتایا جاتا ہے۔
تربت کے مقامی علماء نے واقعہ پر ایک وضاحتی بیان کہا ہے کہ توہینِ مذہب کی شکایت علماء کو موصول ہوئی تو مسئلے کی نزاکت اور حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے اسکول پرنسپل سدیر احمد سے رابطہ کیا گیا۔ بعدازاں چار اگست کو بولان سینٹر میں اسکول ٹیچر نے اپنا وضاحتی بیان دیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پانچ اگست کو مدرسہ اشاعت التوحید والسنہ میں علما جمع ہوئے اور اسکول ٹیچر کی آمد کے منتظر تھے کہ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اطلاع ملی کہ عبدالرؤف کو موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔
بلوچستان میں سول سوسائٹی کی ایک متحرک رکن حمید نور کہتی ہیں ملک دیگر صوبوں میں اکثر ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن تربت میں ہونے والا یہ واقعہ بلوچستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
ان کے بقول مکران ڈویژن کو ایک سیکولر علاقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن کچھ عرصے سے مذہبی رجحان شدت اختیار کر گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے با ت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ جب مقامی استاد عبدالرؤف پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا تو جرگہ بلانے کے بجائے پولیس کو اطلاع دی جاتی اور پولیس انہیں اپنی تحویل میں لیتی۔
حمید نور کہتی ہیں عبدالرؤف نے پہلے ہی دن علماء کے سامنے اپنی صفائی پیش کی اور وہ اگلے روز جرگے میں جانے کے لیے بھی تیار تھے تو ان کا یہی عمل ان کی بے گناہی کا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اور قانون کی موجودگی میں ایسے معاملے پر تربت میں پرائیویٹ جرگہ لگانا مستقبل میں ایسے واقعات کا سبب بن سکتا ہے، جہاں کوئی بھی اٹھ کر اپنے ذاتی اختلافات کی بنا پر کسی پر اس طرح کے الزام لگائے گا۔
سول سوسائٹی نے نو اگست کو عبدالرؤف کے قتل کے خلاف ایک خاموش ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے عہدیدار حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے اسکول ٹیچر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پریشانی کی بات ہے کہ ملک مذہبی شدت پسندی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگوں کو مذہب اور فرقوں کے نام پر لڑانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور تربت میں اسکول ٹیچر کے قتل کا واقعہ اسی کی ایک کڑی ہے۔
فورم