رسائی کے لنکس

طالبان کی پابندیوں سے بچ کرپانچ افغان خواتین فرانس پہنچ گئیں


افغان محقق اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن نوین ہاشم رواسی چارلس ڈیگال ائیر پورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی 4 ستمبر 2023
افغان محقق اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن نوین ہاشم رواسی چارلس ڈیگال ائیر پورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی 4 ستمبر 2023

فرانسیسی عہدیدار کے مطابق پیر کے روز پانچ ایسی خواتین فرانس پہنچ گئیں جنہوں نے طالبان کے خوف سے بارہا فرانس آنے کی درخواست کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ فرانس انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایسا راستہ فراہم کرے کہ جو خواتین عام زندگی میں پابندیوں کا شکار ہیں وہ افغانستان سے نکل سکیں۔

اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان حکام نے خواتین پر بہت طرح کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ افغانستان میں خواتین کی تعلیم، گھر سے باہر ملازمتوں، پارکوں، جمنیزیم میں جانے اور بغیر محرم کے سفر کرنے پر پابندی کے احکامات نے افغان خواتین کے لیے ہر طرح کے مواقعے تقریباً ختم کر دیے ہیں۔

ان پر اقوامِ متحدہ کے اداروں اور دیگر غیر سرکاری تنظیمو٘ ں کے ساتھ کام کرنے پر بھی پابندی ہے اور ہزاروں خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ افغان خواتین اپنا وطن چھوڑ کر دیگر ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

محقق اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن نوین ہاشم فرانس کے رواسی چارلس ڈیگال ائیر پورٹ پہنچنے پر۔ فوٹو اے ایف پی 4 ستمبر 2023
محقق اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن نوین ہاشم فرانس کے رواسی چارلس ڈیگال ائیر پورٹ پہنچنے پر۔ فوٹو اے ایف پی 4 ستمبر 2023

فرانس میں امیگریشن اتھارٹی کے سربراہ ددئیے لیشی نے بتایا ہے کہ ایک صدارتی حکم کے تحت ایسی خواتین پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جنہیں افغان معاشرے میں اہم حیثیت رکھنے یا مغرب کے ساتھ رابطوں کے باعث طالبان سے خطرات لاحق ہیں۔

لیشی نے بتایا،" آج پہنچنے والی یہ پانچ خواتین انہیں میں سے ہیں۔"

ان میں ایک یونیورسٹی کی سابق ڈائریکٹر ہیں، ایک کسیNGO کی سابق کنسلٹینٹ، ٹی وی کی ایک سابق میزبان اور ایک کابل کے ایک خفیہ اسکول کی ٹیچر ہیں۔

ایک خاتون کے ہمراہ تین بچے بھی ہیں۔

نجلہ لطیف پریذیڈنٹ سائنس فیکلٹی دیگر خواتین کے ساتھ رواسی چارلس ڈیگال ائیر پورٹ پہنچنے پر۔ فوٹو اے ایف پی۔ 4 ستمبر 2023
نجلہ لطیف پریذیڈنٹ سائنس فیکلٹی دیگر خواتین کے ساتھ رواسی چارلس ڈیگال ائیر پورٹ پہنچنے پر۔ فوٹو اے ایف پی۔ 4 ستمبر 2023

یہ خواتین 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ان لوگوں میں شامل نہیں ہو سکی تھیں جنہیں طیاروں کے ذریعے افغانستان سے نکالا جا رہا تھا۔

تب وہ بھاگ کر پاکستان چلی گئی تھیں جہاں انہیں عارضی پناہ دے دی گئی تھی۔

لیشی نے بتایا کہ فرانسیسی حکام نے انہیں وہاں سے نکالنے کے انتظامات کیے۔

فرانس پہنچنے کے بعد ان کا اندراج پناہ کی درخواست کرنے والوں میں کر دیا جائے گا اور لیشی کے مطابق جب تک ان کی پناہ گزین کی حیثیت کے لیے درخواستوں پر کارروائی ہو گی انہیں پناہ کے متلاشی کا اسٹیٹس دے کر رہائش مہیا کی جائے گی۔

ویزہ حاصل کرنے میں دشواری

فرانسیسی عہدیدار لیشی نے بتایا کہ اسی طرح دیگر ایسی خواتین کو بھی نکال لیا جائے گا جو ایسے ہی عہدوں پر فائز رہی ہیں۔

افغان صوبے ننگرہار میں افغان خواتین اور بچے امدادی خوراک کے انتظار میں۔ فوٹو اے ایف پی 4 ستمبر 2023
افغان صوبے ننگرہار میں افغان خواتین اور بچے امدادی خوراک کے انتظار میں۔ فوٹو اے ایف پی 4 ستمبر 2023

ڈیلفین رولیٹ فرانس میں ٹیرا ڈیلزیلا نامی NGO کی سربراہ ہیں جو پناہ گزینوں کے لیے کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان خواتین کو فرانس لانا " کسی سیاسی فیصلے کا نتیجہ نہیں ہے" بلکہ ان کے ویزے حاصل کرنے کے لیے" سخت جدو جہد کرنی پڑی ہے۔"

فرانس لائی جانے والی یہ افغان خواتین ابتداء میں رولیٹ کی تنظیم کے تحت چلنے والے خواتین کے ایک سینٹر میں رہیں گی۔ یہ سینٹر مہینوں سے ایسی افغان خواتین کو فرانس لانے کے لیے کام کرتا رہا ہے جنہیں ان پانچ خواتین جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔

رولیٹ نے کہا ہے کہ ایسی سینکڑوں افغان خواتین پاکستان میں "چھپی" ہوئی ہیں۔

فرانس کے صدر ایمینوئیل میکراں نے 2021 کے وسط میں وعدہ کیا تھا کہ "فرانس افغانوں کا ساتھ دے گا۔"

فرانس کے حکام کا کہنا ہے کہ تب سے اب تک تقریباً 16 ہزار لوگوں کو افغانستان سے نکالا گیا ہے۔

( اس خبر میں مواد اے ایف پی سے لیا گیا)

فورم

XS
SM
MD
LG