چاند کی ناہموار اور سنگلاخ سطح پر بھارت کے پرگیان کی کامیاب لینڈنگ کے بعد اب جاپان نے بھی اپنی ایک چاند گاڑی ، چاند کی جانب روانہ کر دی ہے۔یہ گاڑی چاند کے مدار میں تو جلد ہی پہنچ جائے گی، لیکن وہ اترنے میں کئی مہینے لگا سکتی ہے۔امکان یہ ہے کہ وہ اگلے سال کے شروع میں چاند کی سطح کو چھوئے گی۔
اگر چاند گاڑی اپنا مشن مکمل کرنے میں کامیاب رہی تو جاپان چاند پر اپنے سائنسی آلات کی لینڈنگ کرنے والا پانچواں ملک بن جائے گا۔ اس سے پہلے امریکہ، روس، چین اور بھارت اپنی روبوٹک گاڑیاں چاند پر اتار چکے ہیں۔
جاپان کے خلائی تحقیق کے ادارے جاپان ایرو اسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی نے 7 ستمبر جمعرات کو تاینگا شیما کے خلائی مرکز سے ایچ ٹو اے راکٹ کی روانگی کا منظر براہ راست دکھایا۔
اس راکٹ کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے ایک ساتھ دو چیزیں بھیجی گئی ہیں۔ چاند گاڑی اور ایکس رے پر کام کرنے والی خلائی دوربین۔
جاپان کے راکٹ ایچ ٹو اے نےزمینی مرکز سے اپنی روانگی کے محض 13 منٹ کے بعد خلائی دوربین کو زمین کے مدار میں پہنچا کر اپنا پہلا مشن مکمل کر دیا اور پھر اپنے سفر کے 45 منٹ کے بعد اس نے چاند گاڑی کو خود سے الگ کر کے اس راستے پر ڈال دیا جو اسے چاند کے مدار میں لے جائے گا۔
خلا میں سفر کا انداز زمین پر سفر سے بہت مختلف ہوتا ہے۔زمین پر گاڑی چلانے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے جو اسے زمین کی کشش ثقل اور ہوا کی مزاحمت پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے تاکہ وہ آگے بڑھ سکے۔ خلا میں چونکہ کوئی مزاحمت نہیں ہوتی، اس لیے گاڑی کو کسی سمت جس رفتار سے دھکا دے کر چھوڑ دیا جائے تو وہ بلا روک ٹوک اسی جانب ، اسی رفتار سے بڑھنا شروع کر دیتی ہے تاوقتیکہ کسی اور سیارے کی کشش ثقل اسے اپنی جانب نہ کھینچ لے۔
گاڑی کے کیپسول کے راکٹ سے الگ ہونے کے بعد راکٹ کا کام ختم ہو جاتا ہے ۔ تاہم جس گاڑی کو چاند یا کسی سیارے پر اتارنا مقصود ہوتا ہے، اس میں انجن نصب کیے جاتے ہیں جو گاڑی کو کشش ثقل جیسی رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اترنے میں مدد دیتے ہیں۔
جاپان کی خلائی ایجنسی نے، جسے "جے اے ایکس اے" کہا جاتا ہے، اپنے نشریے میں بتایا ہے کہ زمین کے مدار میں لانچ کی جانے والی ایکس رے دوربین سے کہکشاں میں موجود اجسام کی حرکت کی رفتار اور ان کی ساخت کے مطالعے میں مدد لی جائے گی۔
جاپانی خلائی ادارے کا مزید کہنا ہے کہ ایکس رے دوربین ہمیں یہ جاننے میں مدد دے گی کہ خلا میں تیرتے ہوئے اجسام کی، جن میں کہکشائیں، ستارے اور سیارے شامل ہیں، تشکیل کیسے ہوئی۔ سائنس دانوں کو توقع ہے کہ اجرام فلکی کی تشکیل کا کھوج ملنے سے اس راز تک پہنچا جا سکتا ہے کہ یہ کائنات کیسے تخلیق ہوئی اور کس طرح وجود میں آئی۔
اس تحقیق میں جے اے ایکس اے کو امریکی خلائی ادارے ناسا کا تعاون بھی حاصل ہے۔ ایکس رے کے اصول پر کام کرنے والی خلائی دور بین، روشنی کی لہروں، خلا میں گردش کرتے ہوئے اجسام کے درجہ حرارت ، ان کی اشکال اور چمک کی پیمائش کرے گی۔
امریکی ریاست ٹیکساس میں قائم رائس یونیورسٹی کے رائس اسپیس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ ایکس رے دوربین کے ذریعے ہمیں پلازما کے خواص جاننے میں مدد مل سکتی ہے ۔
پلازما وسیع و عریض خلا میں موجود وہ مادہ ہے جس سے کائنات کا زیادہ تر حصہ بنا ہے۔
سائنس کی اصطلاح میں پلازمہ ایک انتہائی گرم مادہ ہے، جس کے بلند درجہ حرارت کی وجہ سے ایٹم کے گرد گردش کرنے والے ذرات جنہیں الیکٹران کہا جاتا ہے، الگ ہو جاتے ہیں اور ایک گیس کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ماہرین فلکیات کے خیال میں کائنات کی 99 فی صد چیزوں میں دکھائی دینے والی چمک کی وجہ پلازمہ ہی ہے۔
آسمان پر ہم دو طرح کی چمکتی ہوئی چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ ایک وہ جن کے اندر سے روشنی نکل رہی ہوتی ہے، مثلا سورج وغیرہ، اور دوسری وہ چیزیں جو سورج کی روشنی کو ہماری طرف منعکس کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیں چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان میں یہ چمک پلازمہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔
الیگزینڈر کا کہنا تھا کہ ایکس رے پر کام کرنے والی خلائی دوربین سے ہم گرم پلازما کے اخراج کے مقام اور وقت اور اس کی رفتار کا تعین کر کے کائنات میں موجود بلیک ہولز اور کیمیائی عناصر کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
جاپانی سائنس دانوں نے اپنے اس راکٹ کے ذریعے ایک چاند گاڑی بھی روانہ کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے سائز کی کم وزن گاڑی ہے۔ اسے چاندپر اتارنے کے لیے ایک مختلف ٹیکنیک استعمال کی جائے گی جسے پن پوانٹ لینڈنگ ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے۔
جاپان کی خلائی ایجنسی کے ایک عہدے دار شینی چیرو ساکائی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت چاند پر اتاری جانے والی روبوٹک گاڑیوں کے لیے 10 کلومیٹر کے دائرے کا ہدف ہوتا ہے ۔ لیکن پن پوائنٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے اب 100 میٹر کے دائرے کے اندر گاڑی کا اتارنا ممکن ہو جائے گا۔
جاپان کے خلائی پروگرام کو مسائل کا سامنا رہا ہے۔ اس سے قبل اپریل میں جاپان کی ایک روبوٹک گاڑی چاند پر اترنے کے دوران گر کر تباہ ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے فروری میں اس کا راکٹ فنی خرابی کی وجہ سے لانچ نہیں ہو سکا تھا۔ جب کہ مارچ میں راکٹ کو دوبارہ لانچ کیا گیا تو وہ راستے میں ہی تباہ ہو گیا تھا۔
چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے انسان دو امریکی خلاباز نیل آرمسٹرانگ اور بز ایلڈرین تھے۔ وہ اپالو پروگرام کے ذریعے 20 جولائی 1969 کو چاند کی سطح پر اترے تھے۔
چاند پر ناسا کا آخری انسانی مشن 1972 میں ہوا تھا۔ جس کے بعد سے اب تک کوئی انسان چاند پر نہیں گیا ۔
لگ بھگ 50 برس کے بعد ایک بار پھر سائنس دانوں کی توجہ چاند پر مرکوز ہو گئی ہے ۔ لیکن اب وہاں تحقیق کے لیے انسان کی بجائے روبوٹک گاڑیاں اتاری جا رہی ہیں۔
فورم