سمندر کے جزیرے خریدنے کی خبریں تو سننے میں آتی رہتی ہیں، لیکن شاید پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ ایک چھوٹے سے ملک کی جانب سے ان کے سمندری حدود کا سرپرست بننے کی پیش کش کی گئی ہے۔ اس ملک کا نام نیو ہے اور یہ نیوزی لینڈ کے قریب بحر الکاہل میں واقع ایک جزیرہ ہے۔
نیو کا رقبہ محض 260 مربع کلو میٹر اور آبادی 1700 کے لگ بھگ ہے۔ملک کا زیادہ تر رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے لیکن زیادہ لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔اگرچہ یہاں لین دین نیوزی لینڈ کی کرنسی میں ہوتا ہے، لیکن یہ ایک خود مختار جزیرہ ہے.
نیو کے وزیراعظم کا نام والٹن ٹیگلیگی ہے۔ ان دنوں وہ ایک ایسے موقع پر نیویارک آئے ہوئے ہیں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہو رہا ہے اور دنیا بھر کے حکومتی سربراہان اور اعلیٰ عہدے دار اس شہر میں موجود ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم ٹیگلیگی نے نیویارک میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے ملک کے سمندری پانیوں کے تحفظ کے لیے بہت سنجیدہ ہیں اور اس کے لیے انہیں دنیا بھر سے سرپرستوں کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کا منصوبہ یہ ہے کہ جزیرے کی سمندری حدود کے 40 فی صد علاقے کو عالمی سطح پر سرپرستی میں دے دیا جائے۔ وہ سمندر کو کسی بڑے ادارے کی سرپرستی میں دینے کی بجائے اس کے چھوٹے چھوٹے یونٹ بنا کر عام لوگوں کو اس عمل میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
ٹیگلیگی کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے ایک مربع کلومیٹر کے یونٹ بنائے گئے ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ 27 ہزار ہے۔ کوئی بھی شخص صرف 148 ڈالر سے 20 سال کے لیے ایک مربع کلومیٹر کی سرپرستی لے سکتا ہے۔
اس منصوبے کے ذریعے نیو کی حکومت کو ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم ملنے کی توقع ہے جس سے وہ اپنے سمندری حدود کے پانیوں کو آلودگی، تیزابیت اور غیرقانونی ماہی گیری جیسے مسائل سے بچانے پر صرف کر سکیں گے۔
بحرالکاہل کے ایک دور افتادہ حصے میں نیوزی لینڈ سے 2400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس جزیرے کو بھی آب و ہوا کی تبدیلی سے انہی خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا گنجان آباد ملکوں کو ہے۔
یہاں کا مرطوب موسم گرم ہو رہا ہے۔ سمندر میں پلاسٹک اور پیٹروکیمیکلز کے کچرے کی مقدار بڑھ رہی ہے۔ جزیرے کی سمندری حدود کی مچھلیوں پر غیر قانونی بیرونی ماہی گیر شب خون مار رہے ہیں۔ جزیرے میں میٹھے پانی کی سطح گھٹ رہی ہے۔جس پر قابو پانے کے لیے نیو کی مالی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ جس کے لیے اس نے اپنے علاقائی پانیوں کی سرپرستی بیچنے کا سوچا ہے۔
نیو ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اس کے مسائل بڑے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو مالی وسائل کا ہے۔ خاص طور پر تعلیم اور روزگار کی سہولیتں بہت محدود ہیں۔ 1700 کی آبادی ملک کے لیے اتنی آمدنی پیدا نہیں کر سکتی جس سے ملکی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ لوگ نیو کو چھوڑ کر نیوزی لینڈ اور دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں نیو کی آبادی 5000 سے زیادہ تھی جو اب گھٹ کر 1700 کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔
بہت چھوٹا ملک ہونے کے باوجود کچھ چیزیں اسے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں منفرد بناتی ہیں۔ اس ملک میں فوج اور پولیس نہیں ہے۔ لیکن ایک ہائی کورٹ ہے جس کے تین جج ہیں۔ نیو میں جرائم کے واقعات کی شرح تقریباً صفر ہے۔ بیرونی جارحیت سے بچاؤ کا معاہدہ نیوزی لینڈ کے ساتھ ہے۔
نیو ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر تین سال کے بعد الیکشن ہوتا ہے جس میں وزیر اعظم کا چناؤ کیا جاتا ہے۔لیکن یہاں کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔
ملک کا دارالحکومت الوفی ہے۔ جس کی آبادی ایک ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ الوفی میں ایک انٹرنیشنل ایئر پورٹ بھی موجود ہے۔تاہم اس کا رن وے چھوٹا ہے۔ یہاں ایئر کنٹرول کا نظام نہیں ہے۔ پائلٹ کو اپنی بصیرت اور سوجھ بوجھ کے مطابق جہاز اتارنا اور اڑانا پڑتا ہے۔
ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق نیو میں کام کرنے کے قابل افراد کی کل تعداد 663 ہے۔ سن 2021 میں ملک کی کل قومی آمدنی ایک کروڑ 90 لاکھ ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی تقریباً 11 ہزار ڈالر تھی۔
نیو کی ایک اور انفرادیت یہاں کی چونے کے پتھر کی سمندری چٹانوں کا وسیع سلسلہ ہے جو سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں یہ چٹانیں اس طرح دکھائی دیتی ہیں جیسے لہروں کے ساتھ رنگ برنگے پھول لہرا رہے ہوں۔
اس طرح کی چٹانیں سمندر میں پانے جانے والی زندہ خلیوں کے اجتماع سے بنتی ہیں۔ وہ اگرچہ سمندر کی تہہ میں ہوتی ہیں لیکن تہہ سے جڑی نہیں ہوتیں۔
اگرچہ وہ پانی میں پودوں کی طرح لہرا رہی ہوتی ہیں لیکن وہ پودے نہیں ہوتے۔ وہ زندہ خلیے ہوتے ہیں جو کئی صورتوں میں زہریلے بھی ثابت ہوتے ہیں۔
فورم