رسائی کے لنکس

جنوبی وزیرستان؛ جرگے نے صحافی کا گھر مسمار کرنے کا حکم کیوں دیا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں روایتی جرگے اور بیرون ملک مقیم صحافی کے درمیان معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

جرگے کے فیصلے کی مخالفت میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کرنے کی پاداش میں نو رُکنی جرگے نے اتوار کو صحافی معراج خالد وزیر پر پانچ لاکھ جرمانہ اور اُن کا گھر مسمار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وانا جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے معراج خالد وزیر پشتو کے نجی ٹی وی اے وی ٹی خیبر سے منسلک ہیں اور وہ اس وقت چین کے دورے پر ہیں۔

نگراں وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا اعظم خان کے نوٹس پر صحافی کا گھر مسمار ہونے سے تو بچا لیا گیا ہے، لیکن صحافی کے اہلِ خانہ جرمانہ ادا کرنے سے انکار کرتے ہوئے جنوبی وزیرستان سے منتقل ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب خیبرپختونخوا میں جرگہ سسٹم کے خلاف تنقید سامنے آئی ہے۔ ماضی میں بھی جرگے کے فیصلوں پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ تاہم ایک طبقہ جرگہ سسٹم کی حمایت بھی کرتا ہے۔

معراج خالد وزیر کے اہلِ خانہ کے علاقہ چھوڑنے کے حوالے سے احمد زئی وزیر قبائل کی ذیلی شاخ زلی خیل جرگے کے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں جرگے میں شامل ملک علاؤ الدین نے کہا کہ معراج خالد کی فیملی کو زبردستی وانا سے بے داخل نہیں کیا گیا، بلکہ وہ خود یہاں سے گئے ہیں۔

دوسری جانب جرگے میں شامل ملک عالم جان کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے معراج خالد کے اہل خانہ کو وانا سے بے دخل کر دیا ہے۔ اگر کسی نے اُن کی مدد کی کوشش کی تو اُنہیں بھی جرمانہ کیا جائے گا۔

معاملہ ہے کیا؟

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی شہزاد دین وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نو رُکنی روایتی جرگے نے حال ہی میں دو فریقوں کے درمیان تنازع نمٹایا تھا۔

جرگے نے ایک فریق کا گھر مسمار کرنے اور جرمانہ عائد کرنے کا حکم دیا تھا جس پر معراج خالد وزیر نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ 'ریاست کے اندر ریاست' نہیں ہونی چاہیے۔

روایتی جرگے نے معراج خالد وزیر کی تنقید پر اُن کا گھر مسمار کرنے اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

شہزاد دین وزیر کے مطابق جرگے نے معراج خالد کو ہفتے کو جرگے کے سامنے پیش ہو کر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔

مقامی افراد کے مطابق اس وقت معراج وزیر کے گھر کو سیل کر دیا گیا ہے جب کہ اُن کے اہلِ خانہ وہاں سے منتقل ہو گئے ہیں۔

ضلعی پولیس افسر فرمان اللہ جان وردگ نے موقع پر موجود صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں جرگے کے فیصلے اور لشکر کشی کو خلاف قانون قرار دیا تھا۔

مقامی پولیس نے متعلقہ قبائلی زعما کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی تھی۔

صحافتی تنظیموں کی مذمت

ملک بھر کے صحافی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کے علاوہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی محمد اعظم خان نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا ہے۔

جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ نے مداخلت کر کے فی الوقت صحافی کے قلعہ نما گھر کو مسمار ہونے سے بچانے میں کامیابی تو حاصل کی ہے۔ مگر دوسری طرف روایتی قبائلی جرگے کے سامنے انتظامیہ کی بے بسی اور نا اہلی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

خیبر پختونخوا یونین آف جرنلسٹس کے صوبائی صدر اور میران شاہ پریس کلب کے صدر صفدر داوڑ نے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں جرگوں اور لشکروں کے سامنے بے بسی پر وفاقی اور صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

صحافتی تنظیموں نے سول انتظامیہ اور عدالتی نظام کی موجودگی میں ان جرگوں اور لشکروں پر فوری طور پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG