سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بغیر عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان کو سیاسی و صحافتی حلقے 'مائنس ون' فارمولے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
نگراں وزیرِ اعظم نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا تھاکہ عمران خان سمیت کسی سیاست دان سے ذاتی انتقام پر عمل پیرا نہیں۔ البتہ اگر کوئی قانون شکنی پر گرفت میں آیا ہے تو قانون کی بالادستی یقینی بنائیں گے۔
انوار الحق کاکڑ کا یہ بیان ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں زیرِ بحث ہے کہ کیا آئندہ انتخابات میں عمران کو حصہ لینے نہیں دیا جائے گا۔سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عمران خان کے حوالے سے نگراں وزیرِ اعظم کے اس بیان کو 2018 میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو درپیش صورتِ حال کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
سن 2018 کے انتخابات سے قبل نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر انہیں پارٹی کی صدارت سے علیحدہ کردیا گیا تھا۔
صحافی سجاد میر کہتے ہیں کہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا بیان اسی تناظر میں ہے کہ عمران خان کے انتخابات میں شریک نہ ہونے سے انتخابات کی شفافیت پر سوال نہیں آئے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقتدر قوتیں ہر زمانے میں کسی سیاسی رہنما کے متعلق ایسے خیالات رکھتی ہیں کہ انہیں سیاست سے باہر کیا جائے۔ماضی میں بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بھی اس صورتِ حال کا سامنا رہا اور انہیں انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا گیا۔
سجاد میر نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں نواز شریف کو پارٹی سربراہی سے ہٹایا گیا لیکن اس کے باوجود ان کی جماعت پارلیمنٹ میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔
واضح رہے کہ عمران خان اس وقت اٹک جیل میں قید ہیں اور وہ توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کے وکلا کی کوشش ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے قبل سابق وزیرِ اعظم کے خلاف درج درجنوں مقدمات میں ضمانت حاصل کی جائے۔
تجزیہ کار نصرت جاوید کے مطابق اگرچہ عمران خان کے خلاف ابھی کئی مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں تاہم انہیں جو بھی سزا دی جائے گی وہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کی سزا اور اپیل کا حق نہ ہونے سے زیادہ نہیں ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس حد تک سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں کہ انہیں نہیں لگتا کہ وہ اس صورتِ حال کے سامنے مزاحمت کریں گی کیوں کہ ان کے بقول یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے۔
ایسے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ عمران خان کے الیکشن میں حصہ نہ لینے سے انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور کیا ان کی جماعت کو اس سے نقصان ہوگا؟
اس سوال پر سجاد میر کہتے ہیں کہ اگرچہ عمران خان کے انتخابات میں شریک نہ ہونےسے ان کی جماعت اور بہت سے لوگ اعتراض اٹھائیں گے تاہم اصولی بات یہ ہے کہ الیکشن کے نام پر مقدمات ختم نہیں کیے جاسکتے۔
نگراں وزیراعظم کا ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ جیل کاٹنے والے پی ٹی آئی ارکان توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ البتہ ایسے ہزاروں کارکنان جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔
تجزیہ کار سجاد میر کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت اپنے نشان کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوسکے گی تاہم عمران خان کو مائنس کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس عمل کو سیاسی انجینئرنگ بھی کہا جاسکتا ہے تاہم یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ نو مئی کے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، اگر انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس کے ملکی سلامتی پر اثرات مرتب ہوں گے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ انہیں نہیں لگتا کہ عمران خان نے ملکی سیاست کے رائج رجحانات کو تبدیل کردیا ہے کہ ان کے بغیر آئندہ انتخابات پر بہت گہرے منفی اثرات ہوں گے۔لیکن عمران خان کی نااہلی کی صورت میں ان کی جماعت کو ہمدردری کا ووٹ ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ ان کے امیدواروں کو بہت زیادہ ووٹ مل جائیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات آئندہ برس جنوری کے آخر میں کرانے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے لیے سیاسی رابطہ مہم اور امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے متعلق کام شروع کر دیا ہے۔
فورم