اگست 1953 میں ایران کے وزیرِ اعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے کردار کے بارے میں اب تک کئی امریکی سرکاری دستاویزات سامنے آچکی ہیں۔
مختلف ادوار میں سی آئی اے اور محکمۂ خارجہ نے ایسی دستاویزات جاری کی ہیں جن میں محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے شروع کیے گئے امریکی خفیہ ادارے کے آپریشن کی تفصیلات موجود تھیں۔
تاہم حال ہی میں سی آئی اے نے پہلی بار یہ اعتراف کیا ہے کہ 1953 میں ایرانی وزیرِ اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹنا ایک غیر جمہوری اقدام تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ماضی میں کئی امریکی عہدے دار بھی اس آپریشن میں امریکی کردار کا اعتراف کر چکے ہیں۔ لیکن سی آئی اے کے پوڈ کاسٹ 'لینگلی فائلز' کی ایک حالیہ قسط میں واقعے کے 70 برس بعد اس کارروائی کے غیر جمہوری ہونے کا اعتراف ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
سی آئی اے کے اس پوڈ کاسٹ میں بنیادی طور پر 1979 میں انقلابِ ایران کے بعد تہران میں امریکی سفارت خانے کے محاصرے اور وہاں یرغمال بنائے جانے والے چھ امریکی سفارت کاروں کو کینیڈا کے سفیر کی مدد سے ملک واپس لانے کے خفیہ آپریشن پر بات کی گئی ہے۔
ایران میں 1979 کے انقلاب سے آنے والی تبدیلی کو چوں کہ 1953 میں محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے اور شاہِ ایران کی وطن واپسی سے جوڑا جاتا ہے، اس لیے پوڈ کاسٹ میں واقعات کا پس منظر بتانے کے لیے اس دور کے حقائق کا حوالہ دیا گیا۔
پوڈ کاسٹ کے دوران میزبان اور سی آئی اے کے ترجمان والٹر ٹروسن نے سی آئی اے کے اس دعوے کا حوالہ دیا کہ ایجنسی نے ماضی میں جو خفیہ آپریشنز کیے ہیں ان میں سے اکثر مقبول اور متنخب حکومتوں کی ’حمایت‘ کے لیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایران میں 1953 میں حکومت کا تختہ الٹنا ایک استثنائی معاملہ تھا۔
ستمبر میں جاری ہونے والے اس پوڈ کاسٹ میں شریک سی آئی اے کے مؤرخ برینٹ گیئری نے کہا کہ یہ واقعی ایک استثنیٰ تھا۔ اس وقت امریکی صدر آئزن ہاور کے پیشِ نظر ایران میں جمہوریت بچانے سے زیادہ دنیا بھر میں جمہوریت کی حفاظت کرنا تھا۔
ان کا مزید کا کہنا تھا کہ ہم سی آئی اے میں اپنی تاریخ پر بار بار اس لیے نظر ڈالتے ہیں کہ ہمارا مقصد اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہے۔
سی آئی اے کے ترجمان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ہے کہ خفیہ ادارے کی قیادت ہر ممکن حد تک عوام کو معلومات تک کھلی رسائی دینا چاہتی ہے۔ اس لیے جب ہم سفارت کاروں کو بحفاظت ملک واپس لانے کے بے مثال آپریشن کی کہانی بتا رہے تھے تو ہمیں معلوم تھا کہ اس کا تاریخی پس منظر اور اس میں سی آئی اے کا کردار بھی زیرِ بحث آئے گا۔
کہانی شروع ہوتی ہے۔۔۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی برطانیہ اور اتحادیوں کے لیے ایران بہت اہم ہو چکا تھا کیوں کہ خلیجِ فارس اور ایران میں تیل کے بڑے ذخائر پر کنٹرول عالمی جنگ میں کامیابی کے لیے فیصلہ کُن حیثیت رکھتا تھا۔
ایران نے اگرچہ اس جنگ میں غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا تھا لیکن ایرانی فرماں روا رضا شاہ پہلوی کے جرمنی سے قریبی تعلقات کی وجہ سے برطانیہ اور اتحادی قوتوں کو ان کے اس اعلان پر مکمل اعتبار نہیں تھا۔ اسی لیے اتحادی فوجیوں نے ایران کے بڑے علاقے کا کنٹرول حاصل کر کے 1944 میں شاہ کو معزول کرکے ان کے بیٹے محمد رضا شاہ کو ایران کا بادشاہ بنا دیا۔
سن 1946 میں جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو ایران کے تیل کے ذخائر پر برطانیہ کی ’اینگلو پرشیئن آئل کمپنی‘ کا کنٹرول تھا۔ اسی دور میں ایران کی قوم پرست تحریک نے دوبارہ منظم ہونا شروع کر دیا تھا اور اس کا مرکزی مطالبہ ہی تیل کی صنعت کو قومیانہ تھا جسے برطانیہ اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔
ایران کے سابق حکمراں قاچارخاندان سے تعلق رکھنے والے محمد مصدق تیل کو قومیانے کی اس تحریک کے سرخیل کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں ںے 1949 میں نیشنل فرنٹ پارٹی بنائی۔ اس پارٹی کا منشور ایران میں آئین کی بحالی اور تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لینا تھا۔
محمد مصدق ایک قومی لیڈر کے طور پر مقبول ہو رہے تھے۔ ایران میں تیل کو قومیانے کا مطالبہ اتنی شدت اختیار کر چکا تھا کہ اس کی مخالفت کرنے والے وزیرِ اعظم علی رزم آرا کو مارچ 1951 میں ’فدائینِ اسلام‘ نامی تنظیم کے کارکنان نے قتل کر دیا تھا۔
رزم آرا کے قتل کے بعد مصدق کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ مل گیا اور شاہِ ایران نے بھی 1951 میں حالات کو دیکھتے ہوئے انہیں وزیرِ اعظم کے طور پر قبول کر لیا۔
وزیرِ اعظم بننے کے بعد مصدق نے ایرانی تیل کی صنعت کو قومیانے کا وعدہ پورا کرنے پر کام جاری رکھا اور نیشنل ایرانین آئل کمپنی قائم کر دی۔
ایرانی تیل کو قومیانے کے بعد جہاں مصدق برطانیہ کے لیے ناقابلِ قبول ہو چکے تھے وہیں شاہ اور مصدق کے درمیان بھی کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ شاہِ ایران سے اسی کشیدگی کے باعث جولائی 1952 میں وزیرِ اعظم مصدق مستعفی ہوگئے جس کے بعد 18 جولائی 1952 کو ایران کے کہنہ مشق سیاست دان اور سابق وزیرِ اعظم احمد قوام کو وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔
لیکن مصدق کے حق میں ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے شاہ پر سیاسی دباؤ اتنا بڑھا کہ صرف چار روز بعد ہی انہیں محمد مصدق کو بطور وزیرِ اعظم بحال کرنا پڑا۔ عہدے پر مصدق کی دوبارہ بحالی دراصل اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی جس کے بعد انہیں اقتدار سے الگ کرنے کے عالمی کھیل کا آغاز ہو گیا۔
تختہ الٹنے کا فیصلہ
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ دونوں قوتیں دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے مفادات اور اثر و رسوخ بڑھانے کی کشمکش میں تھیں۔ سرد جنگ میں دیگر کئی مغربی ممالک کے ساتھ برطانیہ بھی امریکہ کا اتحادی تھا۔
سرد جنگ کے حالات میں برطانیہ اکیلا ہی ایران میں حکومت گرانے کی ذمے داری نہیں لینا چاہتا تھا۔ اسی لیے برطانیہ نے امریکہ سے اس سلسلے میں معاونت کے لیے رابطہ کیا۔ ابتدائی طور پر یہ منصوبہ برطانوی خفیہ ادارے 'ایم آئی 6' کا تھا جس میں اسے امریکہ کی معاونت حاصل تھی۔
امریکہ کی اس منصوبے میں دل چسپی کا سبب یہ تھا کہ مصدق کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں کمیونسٹ نظریات رکھنے والی ’تودہ پارٹی‘ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی۔ اس سے قبل مصدق کو ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ ابوالقاسم کاشانی کی بھی حمایت حاصل تھی۔ لیکن ان دونوں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے مصدق نے تودہ پارٹی کی طرف ہاتھ بڑھا دیا تھا جسے سوویت یونین کی پشت پناہی حاصل تھی۔
برطانیہ نے وزیرِ اعظم مصدق کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا اس میں شاہِ ایران بھی شریک تھے۔ شاہِ ایران رضا شاہ کو برطانیہ کی مدد سے اقتدار ملا تھا اور وہ خود بھی مصدق کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف تھے۔
اس سے قبل 1949 میں جب شاہ نے پارلیمنٹ سے اپنے اختیارات میں اضافہ کرانے کے لیے قانون سازی کی کوشش کی تھی تو محمد مصدق اس کی مزاحمت کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان اسباب کی وجہ سے شاہ بخوشی برطانوی منصوبے کا حصہ بن گئے۔
لیکن مصدق کو پہلے ہی اس منصوبے کا علم ہو گیا اور انہوں نے ملک بھر میں اپنے حامیوں کے بڑے بڑے مظاہرے منعقد کرانا شروع کرا دیے۔
ان مظاہروں کا یہ اثر ہوا کہ اگست 1953 میں جب شاہ نے مصدق کو معزول کرنے اور ان کی جگہ جنرل فضل اللہ زاہدی کو وزیرِ اعظم بنانے کا اعلان کیا تو اس فرمان پر عمل درآمد ہونے کے بجائے مصدق کے حامیوں کے سڑکوں پر آنے کی وجہ سے خود شاہ کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ پندرہ اگست کو مصدق کے پاس شاہ کا فرمان لانے والے شاہی گارڈ کے سربراہ کرنل نعمت اللہ ناصری کو حکومت کے حامی دستوں نے گرفتار کر لیا۔
مصدق پہلے ہی ان حالات کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے شاہی فرمان کو اپنی حکومت گرانے کی سازش قرار دیا اور اس میں شریک افراد کے خلاف آئین کے مطابق کارروائی کرنے کا اعلان کر دیا۔
مصدق کا مؤقف تھا کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر شاہ وزیرِ اعظم کو معزول نہیں کرسکتا۔ اس لیے ان کی حکومت گرانے میں شامل ہونے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔ مصدق کے حکم پر سازش میں شریک افراد کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔
شاہِ ایران پہلے ہی اپنی اہلیہ اور کچھ وفادار ساتھیوں کے ساتھ بیرونِ ملک جا چکے تھے اوران کے نامزد وزیرِ اعظم جنرل زاہدی روپوش تھے۔ ان حالات سے مصدق نے یہ اندازہ لگایا کہ ان کے خلاف سازش ناکام ہوگئی ہے۔ اس لیے انہوں ںے اپنے حامیوں اور تودہ پارٹی کے کارکنوں کو احتجاج سے روک کر گھروں کو واپس بھیج دیا۔
لیکن سی آئی اے جیسے موقع کی تاک میں تھی اور ایک سال پہلے سے ہی کسی ایسے مناسب وقت کے لیے وسائل اور ہتھیار جمع کر رہی تھی۔ اگرچہ سی آئی اے کا یہ آپریشن چار روز میں مکمل ہو گیا لیکن اس کے پیچھے ایک سال کی تگ و دو تھی۔ سی آئی اے کی دستاویزات کے مطابق مصدق حکومت کے خاتمے کے لیے ہونے والے آپریشن ’ٹی پی ایجیکس‘ کے لیے اس وقت 53 لاکھ ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی۔
مصدق کے حامیوں کے گھر لوٹتے ہی سی آئی اے اور جنرل زاہدی نے رابطے تیز کر دیے۔ سب سے پہلے سی آئی اے نے بھاری رقم دے کر ایسے گروہ میدان میں اتارے جنہوں نے خود کو تودہ پارٹی کا کارکن قرار دیا اور ’کمیونسٹ انقلاب‘ کا اعلان کر کے شہروں میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
اسی دوران جنرل زاہدی نے بھاری معاوضہ دے کر تودہ پارٹی کے مقابلے میں ایک ایسے ہجوم کو میدان میں اتار دیا جو خود کو شاہِ ایران کا وفادار ظاہر کر رہا تھا۔ اسی دوران جنرل زاہدی نے تودہ پارٹی کے خلاف سڑکوں پر آنے والوں کو ہتھیار فراہم کرنا شروع کر دیے۔ اس تصادم سے ایران کی کاروباری اشرافیہ، فوج اور عوام میں کمیونسٹ انقلاب کا خوف پیدا ہوگیا۔ اس خوف کو بڑھانے میں مغربی میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
حالات پر قابو پانے کے لیے فوج بھی میدان میں آ گئی جس کے بعد مصدق کو پیچھے ہٹنا پڑا اور جنرل زاہدی نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ حالات قابو میں آنے کے بعد شاہِ ایران ملک واپس آ گئے اور انہوں نے تیل کو قومیانے سے متعلق وزیرِ اعظم مصدق کی قانون سازی کو منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد شاہِ ایران سرد جنگ کے دوران خطے میں امریکہ کے سب سے قریبی اتحادی بن گئے۔
کامیابی یا ناکامی؟
وزیرِ اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹنے سے متعلق اپنی کتاب ’آل دی شاہز مین‘ میں مصنف اسٹیفن کنزر کا کہنا ہے کہ مصدق کی حکومت گرانا واشنگٹن کی وقتی کامیابی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو 1979 میں آنے والا انقلاب دراصل ایران میں اس امریکی مداخلت کا ہی نتیجہ تھا۔ ان کے نزدیک تیل کو قومیانہ کیوں کہ ایران کا قومی مطالبہ تھا جسے مختلف نظریات رکھنے والے سبھی گروہوں اور تنظیموں کی حمایت حاصل تھی، اس لیے بعد کی دہائیوں میں ایران کی سیاسی و مذہبی قوتوں نے مصدق حکومت کے خاتمے کو شاہ اور امریکہ کے خلاف جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا۔
ایران میں قائم مذہبی حکومت آج بھی اس واقعے کو ملک میں اپنے وجود کے جواز اور امریکہ مخالف جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
محمد مصدق پر کتاب کے مصنف مارک گیسیوروسکی کا کہنا ہے کہ مصدق کی جمہوری حکومت گرانے سے شاہِ ایران کا اقتدار تو مضبوط ہوا لیکن ایران میں جمہوری، لبرل اور سیکولر عناصر کے مقابلے میں شدت پسند بائیں بازو اور مذہبی سیاست کرنے والے حلقوں کے ہاتھ مضبوط ہوئے۔
اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی معلومات بھی شامل ہیں۔
فورم