آپ نے جنات اور بھوت پریت کے قصے سنے اور پڑھے ہوں گے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں کچھ لوگ یہ دعویٰ نہ کرتے ہوں کہ انہیں جن نظر آتے ہیں یا ان سے باتیں کرتے ہیں۔
لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے قصبے میں لیے چلتے ہیں جہاں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ یہاں جن بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ کچھ لوگوں کو نظر بھی آتے ہیں۔ وہ ان کے لیے کام بھی کرتے ہیں۔
اس قصبے کا نام بہلا ہے۔ یہ اومان کی ایک قدیم آبادی ہے جو دارلحکومت مسقط سے تقریباً 200 کلومیٹر پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ علاقہ الداخلیہ صوبے میں شامل ہے۔
بہلا ایک خاموش قصبہ ہے۔ زیادہ تر مکانات کچی اینٹوں کے ہیں۔ یہاں کجھور کے درخت اور جھنڈ ہیں۔ یہ ایک صحرائی علاقہ ہے اور خطہ عرب کا سب سے اونچا پہلاڑی سلسلہ کوہ حجر بھی پاس سے گزرتا ہے۔
جب آپ بہلا میں داخل ہوتے ہیں توعمارتوں کی قدامت ، ماحول پر چھائی ہوئی خاموشی اور پراسراریت ایک ہیبت سی طاری کر دیتی ہے۔
بہلا کا شمار اومان کی قدیم ترین انسانی آبادیوں میں ہوتا ہے۔ یہ علاقہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل ہے اور یہاں موجود قلعہ قرون وسطیٰ میں تعمیر ہوا تھا۔
حماد الربانی ایک ٹور گائیڈ ہیں جو سیاحوں کو قرون وسطی کے قلعے اور اس علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جنات کا یہاں ہونا کوئی ان ہونی بات نہیں ہے۔ وہ بھی خدا کی پیدا کردہ مخلوق ہے۔
ربانی کو جنات کی کئی کہانیاں اور قصبے یاد ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنات نے اس قصبے کو حملہ آوروں سے بچانے کے لیے ایک ہی رات میں 13 کلومیٹر لمبی دیوار بنا ڈالی تھی۔
ربانی نے، جن کی عمر 55 سال ہے، بتایا کہ جنات کے بارے میں قصبے میں ایک اور مشہور قصہ یہ ہے کہ یہاں آب پاشی کا قدیم ترین نظام بھی جنوں نے ہی بنایا تھا جس سے یہاں کاشت کاری ہوتی تھی۔
ربانی کا کہنا تھا کہ بہلا کے لوگوں کا جنات اور ان سے منسوب کہانیوں سے جتنا مضبوط اور گہرا تعلق ہے وہ شاید ہی کسی اور جگہ ہو گا۔ انہیں یقین ہے کہ جنات جو چاہیں جب چاہیں کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ وہ چاہے تو گھوڑا بن جائیں یا کوئی اور جانور یا نظروں سے غائب ہو جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ قصبے کی ایک عورت آدھی رات کو اپنی گائے کا دودھ دہونے اور پینے کی آوازیں سنا کرتی تھی۔وہ کئی بار اٹھ اٹھ کر دیکھنے جاتی تھی، لیکن کبھی کوئی نظر نہیں آیا۔کیونکہ یہ وہ طاقتیں ہیں جنہیں آپ کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔
بہلا کے پرانے بازار میں ظہر کی نماز کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔اس سناٹے میں کوئی شخص جنوں کاقصہ چھیڑ دیتا ہے اور لوگ ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ جنوں کی باتوں اور کہانیوں کے بغیر انہیں اپنی زندگی ادھوری سی لگتی ہے۔
محمد الہاشمی 70 کے پیٹھے میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جنوں اور بھوتوں کی کہانیاں سنتے ہوئے، سناتے ہوئے اور انہیں تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے گزرا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں اپنے بچپن میں یہ سنا کرتا تھا کہ رات کے وقت جنات لگڑبھگڑ کے روپ میں اونٹوں کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بزرگ انہیں نصیحت کرتے تھے کہ وہ سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نہ نکلا کریں کیونکہ کوئی آسیب یا جادو گھیر لے گا۔
اور شاید انہی مافوق الفطرت کہانیوں کی وجہ سے ہی بہلا میں اتنی خاموشی ہے، پراسراریت ہے اور خوف چھایا رہتا ہے۔
لاس اینجلس کی لایولا میری ماؤنٹ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر علی اولومی کہتے ہیں کہ جزیرہ نما عرب کے علاقے کی لوک داستانوں اور قدیم تحریروں میں جنات کی موجودگی کے واقعات ملتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بہلا سے منسوب کہانیاں شاید اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ وہ صحرا میں گھری ایک قدیم انسانی آبادی ہے جہاں کوہ حجر کا سلسلہ ماحول کو مزید پر اسرار بنا دیتا ہے۔
تاہم نئی نسل ان کہانیوں کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ 24 سالہ میزان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے دادا دادی کی کہانیاں ہیں، مجھے نہیں معلوم ان میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔
( اس تحریر کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم