رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: عارضی جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور غزہ کے لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟


عارضی جنگ بندی کے معاہدے میں دو دنوں کی توسیع پر اسرائیل اور غزہ میں لوگوں نے سکون کا سانس لیا ہے۔

اسرائیل میں لگا تار یرغمالوں کی رہائی کے مطالبات ہوتے رہے ہیں اور پچھلے چار روز مسلسل بے یقینی کے بعد جس طرح کامیابی کے ساتھ یرغمال اسرائیلیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے، اس سے لوگوں میں دیگر یرغمال افراد کی اسرائیل واپسی کی امید جاگی ہے۔

جن یرغمالوں کی رہائی ہوئی ان میں سے زیادہ تر کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد ابھی بھی غزہ میں حماس کے قبضے میں ہے۔ پھر بھی لوگ واپس آنے والوں کے لیے خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔

اسرائیل کے جنوبی علاقے کے شہریوں نے نہ صرف اپنے عزیزوں کو کھویا ہے بلکہ وہ بے گھر بھی ہوئے ہیں۔اسرائیل کے جنوبی اور شمالی علاقے سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو حکومت نے اسرائیل کے مرکزی علاقوں کے ہوٹلوں میں رکھا ہے۔ ایسے ہی ایک ہوٹل میں، میں نے لوگوں کو غزہ سے رہائی کے بعد اسرائیل واپس آنے والوں کے لیے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔

وہاں موجود لوگوں میں سے لگ بھگ سبھی نے سات اکتوبر کے واقعے میں کسی نہ کسی کو کھویا ہے۔ بھائی بہن، ماں باپ، بچے، دوست ، سبھی کا کوئی نہ کوئی عزیز اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ جتنے لوگ اتنی کہانیاں ہیں۔ اس کے باوجود سبھی جیسے خوش ہونے کی ایک وجہ ڈھونڈ رہے ہیں اور رہائی پا کر واپس آنے والوں کی صورت میں انہیں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔

ہوٹل میں قیام پذیر اسرائیلی خاندانوں کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسےان کے بچوں کا بچپن کھو گیا ہے۔ ان کے لیے کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ کہنے کو وہ ہوٹل میں رہ رہے ہیں اور انہیں تمام ضروریات بھی مہیا ہیں۔ لیکن سب گم صم ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی پریشان نظر آتے ہیں اور ان کے والدین ان سے کہیں زیادہ۔

عارضی جنگ بندی کے بعد اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوگیا ہے۔
عارضی جنگ بندی کے بعد اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوگیا ہے۔

اسرائیل کی حکومت بے گھر ہونے والوں کو ہر سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن انسان کے لیے صرف سہولتیں ہی تو کافی نہیں ہوتیں۔کتنی ہی سہولتیں کیوں نہ ہوں، اندیشے اور سوال بے چین کردیتے ہیں۔ یہاں بھی ایک طرف انہیں مستقبل کی فکر ہے تو دوسری طرف جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ اور کیسے ان کے قریبی عزیز اور خاندان والوں کو چھڑایا جائے گا؟ ہر چہرے پر ایسے کتنے ہی سوال نظر آتے ہیں۔

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے خطے کے مستقبل پر بھی ایسے ہی کئی سوال ہیں جن سے امن کے امکانات مدھم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن اس ماحول میں بھی کچھ معقول آوازیں سن کر خطے کے روشن مستقبل کی امید بندھتی ہے۔

اسرائیل کے شہری روئی بتاتے ہیں کہ ان کے دادا کو حماس نے یرغمال بنا لیا تھا اور ان کے چچا سات اکتوبر کے حملے میں مارے گئے۔ وہ اپنے دادا کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے دادا کو ہمیشہ اس بات پر پختہ یقین تھا کہ خطے کا امن حاصل کیا جاسکتا ہے۔

روئی کہتے ہیں کہ ’’میں اس مشکل صورت حال میں بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میں ناامید نہیں ہوں گا۔ میری نسل یا اگلی نسل یا پھر اس کے بعد کی نسل ضرور اس امید کو حقیقت میں تبدیل ہوتا دیکھے گی۔‘‘

غزہ میں بارش کے باعث پناہ گزین کیمپوں میں بھیڑ بڑھتی جارہی ہے۔
غزہ میں بارش کے باعث پناہ گزین کیمپوں میں بھیڑ بڑھتی جارہی ہے۔

’ہر طرف ایک ہی کہانی ہے‘

غزہ کے لوگوں کی آوازوں اور باتوں سے صورتِ حال سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ لوگوں کو اندیشہ ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی کی مہلت کافی کم ہے اور اسی دوران انہیں آگے کی تیاری کرنی پڑے گی۔

حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور اس میں تبدیلی کی امید نظر نہیں آتی۔ زیادہ تر لوگ اس قید خانے سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ مگر باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ آمد و رفت محدود ہے۔

شمالی غزہ کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب وہاں لوٹ کر جانا بے سود ہے۔ اسرائیلی کارروائی میں سب تباہ ہو گیا ہے اور اب وہاں نہ گھر بچا ہے نہ کوئی ٹھکانہ۔

سب برباد ہونے کے بعد بھی لوگوں کے پاس خدا پر اعتماد رہ گیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شیلٹرز میں رہ رہے ہیں۔ پناہ گزینوں نے اسکولوں میں پناہ لے رکھی ہے جہاں ایک ایک کمرے میں دس دس لوگ سو رہے ہیں۔ بارش نے بھی قہر ڈھا رکھا ہے اور پہلے جو لوگ کھلے آسمان کے نیچے سو رہے تھے وہ بھی شیلٹر میں سر چپھانے والی بھیڑ میں شریک ہوگئے ہیں۔

ضروری چیزوں کی فراہمی کے لیے ٹرک سامان لے کر آ تو رہے ہیں مگر ایندھن کا حال یہ ہے کہ اب بھی بجلی تقریباً غائب ہے اور لوگوں کے لیے فون چارج کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ گاڑیاں تقریباً سڑکوں سے غائب ہیں اور لوگ گدھا گاڑیوں اور اونٹوں پر آمد و رفت کر رہے ہیں۔

جنگ بندی کے بعد پچھلے چار دنوں سے غزہ میں بچےبھاگ دوڑ کر رہے ہیں اور ان کے گھر والے انہیں قابو کرنے میں لگے ہیں۔ ایک خاتون سلویٰ کہتی ہیں کہ غزہ میں نہ رہ سکتے ہیں، نہ وہاں سے کہیں جا سکتے ہیں۔ زندگی میں نا امیدی بڑھ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بس دعا کر رہی ہیں کہ ان کے بچے کسی طرح سےزندہ رہیں، بھلے ان کا مستقبل کچھ بھی ہو۔

غزہ میں ہر طرف یہی کہانی عام ہے اور تقریباً غزہ کا ہر شہری یہی کہانی الگ الگ طریقے سے بیان کر رہا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG