پاکستان سے غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کے دوران امریکی عہدے داروں کے دورۂ پاکستان کو دونوں ملکوں کے تعلقات اور افغانستان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے آبادی، پناہ گزین و مائیگریشن جولیٹا والس تین روزہ دورہ مکمل کر کے بدھ کو واپس روانہ ہوئی ہیں جب کہ جمعرات کو افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔
ان دو سفارت کاروں کے علاوہ امریکی دفترِ خارجہ کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری الزبتھ ہورسٹ بھی ہفتے کو تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ رہی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی سفارت کاروں کی اسلام آباد آمد بتاتی ہے کہ دو طرفہ تعلقات میں پائے جانے والی سرمہری دور ہو رہی ہے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی حکام سیاسی امور کے بجائے صرف مخصوص موضوعات تک بات چیت کو محدود رکھیں گے۔
سابق سفارت کار اور سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری دکھائی دیتی ہے۔ لیکن انہیں ماضی کی سطح پر پہنچنے میں ابھی وقت درکار ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کی تیاری ہو رہی ہے اور حکام کے یہ دورے دو طرفہ تعلقات میں بحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
علی سرور نقوی نے کہا کہ امریکی سفارت کار اپنے اسلام آباد قیام کے دوران پاکستانی حکام کے ساتھ اہم موضوعات پر گفتگو کریں گے تاہم یہ بات چیت مخصوص موضوعات تک محدود رہے گی۔
اسٹریٹجک اور سیاسی امور کے تجزیہ نگار ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں امریکی وزیرِ خارجہ، دفاع یا قومی سلامتی کے مشیر یا کسی سیاسی رہنما نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرمجوشی نہیں ہے۔ امریکہ محض محکمۂ خارجہ کے ذریعے ہی پاکستان سے رابطے پر اکتفا کر رہا ہے۔
اُن کے بقول واشنگٹن اب بھی اسلام آباد کو کابل کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
'امریکہ پاکستان اور افغانستان میں تناؤ کو سمجھنا چاہتا ہے'
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کہتی ہیں کہ رواں ہفتے امریکی عہدے داروں سے ہونی والی بات چیت، دونوں ملکوں کے درمیان مختلف اُمور پر ہونے والے رابطوں کا تسلسل ہے جس میں افغانستان کی صورتِ حال بھی شامل ہے۔ تاہم ترجمان نے واضح کیا کہ بات چیت صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں رہے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے اور دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان سخت بیانات کے تبادلے کے علاوہ سرحد پر جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی افغان پالیسی پر امریکہ کو تشویش ہے اور امریکی سفارت کار سمجھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان پایا جانے والا عدم اعتماد کس سطح کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ خراب تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلا چین اور ایران کے لیے مواقع بڑھائے گا۔ تاہم امریکہ چاہے گا کہ قطر اور متحدہ عرب امارات یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان نے پاکستان مخالف دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
ایک نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں اور اس حوالے سے معلومات بھی طالبان حکومت کو فراہم کی گئی ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ افغان طالبان پاکستان میں سیکیورٹی کے ذمے دار نہیں ہیں۔
'پناہ گزینوں کی واپسی پالیسی شفٹ ہے'
پاکستان نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ یکم نومبر سے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اُن کے آبائی ملکوں میں بھیج دیا جائے گا جس کے بعد سے اب تک تین لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھجوایا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور امریکہ کی طرف سے پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اُن غیر ملکی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے جن کی جانوں کو افغانستان واپسی پر خطرہ ہو سکتا ہے۔
علی سرور نقوی نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی پر سختی نہ کی جائے خاص طور پر ان خاندانوں کو واپس نہ بھجوایا جائے جنہیں افغانستان میں خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ابھی یہ سوچ واضح نہیں ہے کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے کیا حکمتِ عملی اپنانی ہے۔
ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ پاکستان کاغیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا فیصلہ ایک پالیسی شفٹ کے طور پر لیا گیا ہے اور امریکی حکام جاننا چاہیں گے کے اسلام آباد مستقبل میں افغانستان کے حوالے سے کیا اقدامات لینے جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے پالیسی تین مراحل میں ہے جس کے پہلے مرحلے میں غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو واپس بھجوایا جارہا ہے، دوسرے مرحلے میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائے گا اور تیسرے مرحلے میں یورپی ممالک اور امریکہ جانے کے منتظر افغان باشندوں کو واپس جانے کا کہا جائے گا۔
امریکہ نے حال ہی میں پاکستانی حکام کو 25 ہزار افغان باشندوں پر مشتمل ایک فہرست فراہم کی تھی۔ امریکی حکام نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ ان افراد کو ملک بدر نہ کرے۔ تاہم پاکستان نے اس فہرست پر اعتراض اُٹھایا تھا اور اس معاملے پر اب بھی دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں افراد پناہ کے لیے پاکستان آ گئے تھے۔ ان میں سے متعدد امریکہ منتقلی کے انتظار میں ہیں۔
فورم