رسائی کے لنکس

قطر: سزائے موت پانے والے بھارتی بحریہ کے اہلکاروں کی رہائی ممکن ہو پائے گی؟


قطر میں بھارت کے سفیر نے ایک قطری عدالت کی جانب سے اکتوبر میں بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کے بعد جیل میں اُن سے ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات سزا سنائے جانے کے بعد پہلی بار ہوئی ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعرات کو پریس بریفنگ میں بتایا کہ بھارت اس معاملے پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے اور قیدیوں کو تمام قانونی اور قونصلر امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول بھارتی سفیر نے جیل میں قیدیوں سے تین دسمبر کو ملاقات کی۔ قبل ازیں سات نومبر کو بھارت کو قونصلر رسائی دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ ایک قطری عدالت نے بھارتی نیوی کے ان سابق اہلکاروں کو جاسوسی کے الزام میں 26 اکتوبر کو سزائے موت سنائی تھی۔ بھارت نے اس فیصلے کو قطر کی ایک عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔

ان اہلکاروں کو گزشتہ سال اگست میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ اہلکار قطر کی ایک نجی کمپنی ’ال دہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی سروسز‘ میں کام کر رہے تھے۔ یہ کمپنی قطر کی مسلح افواج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو ٹریننگ اور متعلقہ خدمات فراہم کرتی تھی۔

رپورٹس کے مطابق انھیں کمپنی میں کام کے دوران اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں ایک اعلیٰ افسر کمانڈر (ریٹائرڈ) پرنیندو تیواری بھی ہیں جنہوں نے بھارت کے ایک بڑے جنگی بحری جہاز کو کمانڈ کیا تھا۔ وہ کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ ان اہل کاروں کی ضمانتوں کی درخواستیں متعدد بار مسترد کی جا چکی تھیں۔ مذکورہ کمپنی بعد میں بند کر دی گئی۔

اپیل کی سماعت اور سفارتی کوششیں

باگچی کے مطابق بھارت نے قیدیوں کے اہلِ خانہ کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے جس پر دو سماعتیں ہو چکی ہیں اور تیسری عنقریب ہونے والی ہے۔

دہلی کے اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق تیسری سماعت جمعرات کو ہوئی ہے۔ کورٹ آف اپیل کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد یہ معاملہ ’منسوخ کرنے والی عدالت‘ میں پیش کیا جائے گا۔

بھارتی سفیر وِپول کی قیدیوں سے ملاقات بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی رواں ماہ کے آغاز میں امیرِ قطر سے ملاقات کے بعد ہوئی تھی۔ یہ ملاقات دبئی میں کوپ 28 کانفرنس کے دوران ہوئی تھی۔

ارندم باگچی نے پریس بریفنگ میں اس ملاقات کا ذکر کیا اور کہا کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات پر تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا اور قطر میں مقیم بھارتی شہریوں کے احوال پر بھی گفتگو کی۔

لیکن جب باگچی سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وزیرِ اعظم مودی نے قطر کے امیر سے ملاقات میں اس معاملے پر بھی گفتگو کی تھی تو انھوں نے اس کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ انھوں نے قطر کے امیر سے ملاقات کے سلسلے میں وزیرِ اعظم مودی کی سوشل میڈیا پوسٹ کا حوالہ دیا۔

وزیرِ اعظم نے اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ ہم نے امیرِ قطر سے باہمی تعلقات اور قطر میں مقیم بھارتی شہریوں کے سلسلے میں اچھی بات چیت کی ہے۔ یاد رہے کہ قطر میں سات لاکھ بھارتی مقیم ہیں۔

ارندم باگچی نے مزید کہا کہ عدالت کا فیصلہ رازدارانہ ہے لہٰذا اس کی تفصیلات صرف قانونی ٹیم کو ہی بتائی جا سکتی ہیں۔ انھوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی قیاس آرائی سے بچیں۔

'حکومت اب اس معاملے میں متحرک ہوئی ہے'

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس معاملے میں حکومت کو سنجیدہ کوشش کرنی چاہئیں۔ کیوں کہ ایک تو نیوی کے سابقہ اہلکاروں پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا ہے اور دوسری بات یہ کہ خلیجی ملکوں کا عدالتی نظام بھارتی عدالتی نظام سے مختلف ہے۔

خارجہ امور کے سینئر تجزیہ کار مفیض جیلانی کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں قانونی کوششوں کے ساتھ ساتھ سفارتی چینلوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت اور قطر کے رشتوں کے پیشِ نظر اس معاملے میں سفارتی تعلقات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ حکومت نے شروع میں اس معاملے میں صحیح طریقے سے اقدامات نہیں اٹھائے۔ لیکن اب حکومت کی سطح پر قانونی کوشش بھی کی جا رہی ہے اور سفارتی بھی۔

ان کے مطابق قطر میں بھارت کے سفیر قیدیوں سے ملاقات کے علاوہ وہ وہاں کی حکومت کے مسلسل رابطے میں بھی ہیں اور اپنی سطح پر کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے یہ اقدامات شروع ہی میں اٹھائے جانے تھے۔ لیکن اس وقت حکومت نے سستی کا مظاہرہ کیا اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا۔ اس معاملے کو بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے اٹھایا تھا، میڈیا حلقوں سے بھی اٹھایا گیا اور حکومت سے اپیل کی گئی کہ وہ ان قیدیوں کو رہا کرانے کی کوشش کرے۔

ان کے مطابق اگر چہ یہ معاملہ قانونی ہے پھر بھی ان کا خیال ہے کہ سفارتی کوششیں رنگ لائیں گی۔ وزیرِ اعظم مودی کے قطر کے امیر سے دوستانہ رشتے ہیں۔ وزیرِ اعظم مودی نے عرب ملکوں سے بھارت کے رشتوں کو آگے بڑھایا ہے جس سے بھارت کو بھی فائدہ ہو رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قطر کے ساتھ بھارت کے دوستانہ رشتوں میں بعض اوقات کشیدگی بھی آ جاتی ہے۔ یہاں اقلیتوں کے تعلق سے کوئی ناخوش گوار معاملہ پیش آتا ہے تو قطر اور دیگر عرب ملکوں کی جانب سے ردِعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر تعلقات بہت اچھے ہیں۔

خیال رہے کہ جب حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں قابل اعتراض بیان دیا تھا تو سب سے پہلے قطر نے ہی ردِعمل ظاہر کیا اور احتجاج کیا تھا۔ اس نے اس معاملے میں بھارت سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا تھا جس کی وجہ سے ایک سفارتی بحران پیدا ہو گیا تھا۔

عرب، مسلم اور خلیجی ملکوں کے احتجاج کے بعد نوپور شرما کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا تھا۔

جن اہل کاروں کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن بیریندر کمار ورما، کیپٹن سوربھ وشسٹ، کمانڈر امت ناگپال، کمانڈر پرنیندو تیواری، کمانڈر سگوناکر پکالا، کمانڈر سنجیو گپتا اور سیلر راگیش شامل ہیں۔

دوحہ میں بھارت کے سابق سفیر دیپک متل نے بھی گرفتار شدگان سے تین بار ملاقات کی تھی اوراس امید کا اظہار کیا تھا کہ وہ جلد ہی وطن لوٹ آئیں گے۔

وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے دہلی میں قیدیوں کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی تھی اور انہیں یہ یقین دلایا تھا کہ قیدیوں کو ہر ممکن قانون مدد فراہم کی جائے گی اور انھیں جلد از جلد رہا کرایا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG