صدر بائیڈن نے منگل کے روز انتباہ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ پر اپنی "اندھا دھند بمباری "کی وجہ سے بین الاقوامی حمایت کھو رہا ہے ۔
صدر نے یہ غیر معمولی طور پر سخت زبان ایسے وقت استعمال کی ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقفے کی حمایت میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیاگیا ہے
صدر بائیڈن نے منگل کو 2024 کی اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک فنڈ ریزنگ کے دوران عطیات دہندگان سے کہا، اسرائیل کی سیکیورٹی کا انحصار امریکہ پر ہو سکتا ہے لیکن اس وقت اسے یورپی یونین ، یورپ اور بیشتر دنیا کی حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی اندھا دھند بمباری کی وجہ سے اس حمایت سے محروم ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔
صدر نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو یہ بات سمجھتے ہیں لیکن وہ اسرائیل کی جنگی کابینہ کے بارے میں یقین نہیں رکھتے۔
اسرائیلی فورسز پورے غزہ میں اجتماعی سزا کے طور پر حملے کر رہی ہیں۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں ہلاک کر رہی ہیں، جب کہ فوج ایسی کارروائی پر زور دے رہی ہے جو اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق کئی ہفتوں یا مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
صدر نے اپنے اس انتباہ کا بھی اعادہ کیا کہ اسرائیل کو حد سے زیادہ رد عمل کی وہی غلطیاں نہیں کرنی چاہئیں جو امریکہ نے نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد کی تھیں۔
2024 کی انتخابی مہم کے لیے فنڈ ریزنگ کی یہ تقریب یہودی عطیات دہندگان کے ایک اجتماع کا حصہ تھی ۔
بائیڈن نے سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے، اس وقت اسرائیل کے فیصلوں اور اس کی قدامت پسند حکومت کے اقدامات پر معمول سے زیادہ سخت موقف کا اظہار کیا ہے ۔
اسی دوران صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے اعلیٰ ترین مشیر ، جیک سلیوان اس ہفتے اسرائیل روانہ ہو رہے ہیں تاکہ بڑی جنگ کے خاتمے کے لیے ٹائم ٹیبل کے بارے میں براہ راست مشاورت کر سکیں۔
صدر نے کہا کہ اسرائیل کو سخت فیصلہ کرنا ہو گا۔ بنیامین نیتن یاہو کو سخت ٖفیصلہ کرنا ہو گا، حماس کو قابو میں رکھنے کی بلا شبہ ضرورت ہے، اس بارے میں کوئی سوال نہیں ہے ۔
تاہم انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسرائیل کے لیڈر( نیتن یاہو) کو اپنی حکومت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل میں ان کی حکومت اسے بہت دشوار بنا رہی ہے ۔
بائیڈن کے بیان پر اسرائیلی فوج اور حماس دونوں کا رد عمل سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے کہا ، ہم جانتے ہیں کہ حماس کے مضبوط مراکز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے عام شہریوں کو دہشت گرد اہداف سے کس طرح بہترین طریقے سے الگ رکھا جا سکتا ہے ۔
بیروت میں حماس کے ایک سینیئر عہدے دار سے جب بائیڈن کےبیان کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ فلسطینیوں کی مزاحمت اور استقامت نے بائیڈن کو یہ باور کروا دیا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائی ایک جنونی اقدام ہے ۔
ایک نیوز کانفرنس کے دوران حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اسامہ حمدان نے کہا،" جنگ کے اثرات پورے اسرائیل کے لیے اور ان انتخابات کے لیے بحرانی ہوں گے جن میں بائیڈن وائٹ ہاؤس میں اپنی نشست سے محروم ہو سکتے ہیں۔"
انتخابات کیلئے چندہ جمع کرنے کی تقریب میں صدربائیڈن کےبیان سے پہلے نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ حاصل شدہ امریکی حمایت کو سراہتے ہیں ،" جو زمینی حملے کی مکمل حمایت اور جنگ روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کو روکنے سے متعلق ہے۔"
بائیڈن کے بیان سے قبل وال اسٹریٹ جرنل کی میزبانی میں ہونے والے ایک فورم میں جیک سلیوان نے بائیڈن انتظامیہ کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ اسرائیل کو غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے یا اس کے علاقے کو مزید سکڑتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی جو پہلے ہی ایک چھوٹا علاقہ ہے۔
امریکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی اور دو ریاستی حل پر مبنی ان امن مذاکرات کی بحالی کا بار بار مطالبہ کر چکا ہے جن کا مقصد اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم