خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 23 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے فوری بعد پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نےافغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت کے پاکستان میں ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کیا اورفوج پر حملے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی حکومت سے دہشت گردی کے حوالے سے باضابطہ احتجاج کیا ہو۔ تاہم منگل کے پاکستان کی جانب سے جاری ڈی مارش میں سخت زبان استعمال کی گئی اور طالبان کی عبوری حکومت کے سامنے مطالبات بھی رکھے گئے۔
حالیہ عرصے میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے افغان ناظم الامور کو باضابطہ طلب کرکے احتجاج کیا ہو ۔ بعض مبصرین کے مطابق اس سے صورتِ حال کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے۔
قبل ازیں پاکستان نے کئی مواقع پر افغان سرزمین کے دہشت گردی میں استعمال ہونے پر طالبان حکومت سے دفترِ خارجہ کے افسران کی سطح پر احتجاج کیا تھا۔
پاکستان کی فوج کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کو سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں 23 اہلکار نشانہ بنے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم ’تحریک جہاد پاکستان‘ نے قبول کی جو کہ دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق ’تحریکِ طالبان پاکستان‘ (ٹی ٹی پی) سے وابستہ ایک دہشت گرد گروپ ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سخت رویہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان اسلام آباد کے تحفظات کو دور نہیں کررہے جس سے مستقبل میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگا۔
پاکستان کا افغان طالبان کی حکومت سے احتجاج
افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اعلیٰ سطح پر احتجاج کیا ہے جوکہ اسلام آباد کے غصے اور شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تشویش بڑھ رہی ہے کہ افغان طالبان انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی کے باوجود اپنی سرزمین استعمال ہونے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں جب کہ پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد حکومت براہِ راست افغانستان کا نام لے گی۔
طاہر خان کے مطابق دفترِ خارجہ کا منگل کا بیان ماضی سے کچھ مختلف ہے جس میں سخت الفاظ کا چناؤ کیا گیا ۔ سیکریٹری خارجہ کا افغان ناظم الامور سے احتجاج کرنا صورتِ حال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی سطح پر باضابطہ تعلقات تو نہیں ہیں۔ لیکن عملی طور پر پہلے سے معطل تعلقات موجود ہیں اور یہ صورتِ حال انہیں مزید خرابی کی طرف لے جائے گی۔
سابق سفیر میاں ثناء اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو یقین تھا کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو ختم کریں گے تاہم ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسلام آباد نے یہ غلطی کی کہ دوحہ مذاکرات اور افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت طالبان کی سفارتی مدد کی کیوں کہ طالبان دوحہ معاہدے اور ماسکو فارمیٹ میں کرائی گئی یقین دہانیوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دفتر خارجہ کا حالیہ ڈی مارش اس وجہ سے سخت ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والا حملہ بہت شدید تھا جس میں دو درجن سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
سابق سفارت کار نے کہا کہ پاکستان کی حکومت مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان حالات مزید خراب ہوں گے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے حملے کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حملہ افغان سرحد سے سیکڑوں کلومیٹر دور ہوا ہے۔
افغان ریڈیو ’آر ٹی اے‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کے ساتھ اس حملے کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ کیا گیا تو وہ اس کی تحقیقات کریں گے۔
عام انتخابات اور دہشت گردی
پاکستان میں حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی اہل کاروں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کو دو ماہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی -ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت بعض سیاسی رہنما امن و امان کی صورتِ حال کے باعث یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بے امنی ہے۔ وہاں انتخابات کا ماحول دیا جانا چاہیے۔
تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ اگر طالبان پاکستان کے مطالبات نہیں سنتے اور بڑے حملے جاری رہتے ہیں تو یہ صورتِ حال آئندہ عام انتخابات کو متاثر کرے گی۔ سیاسی اجتماعات مسلح گروہوں کے لیے آسان ہدف ہوتے ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کا سیاسی جماعتوں کے حوالے سے مؤقف پہلے سے سامنے ہے۔
طاہر خان کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں پاکستان کی تشویش بڑھے گی۔
میاں ثناء اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے پہلے ہی خدشات موجود ہیں کہ یہ ملتوی ہو جائیں گے اور اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات ان خدشات کو تقویت بھی دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات وقت پر بھی ہوتے ہیں تو بھی دہشت گردی کی کارروائیاں بہر حال الیکشن مہم کو متاثر کریں گی۔
آرمی چیف کا دورۂ امریکہ اور انسدادِ دہشت گردی
ڈیرہ اسماعیل خان میں حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے افغانستان میں برسِ اقتدار طالبان کو ڈی مارش ایسے وقت میں دیا گیا جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر پہلے باضابطہ دورے پر امریکہ میں ہیں۔
طاہر خان نے کہا کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ عاصم منیر اپنے دورۂ امریکہ میں افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے معاملے کو ضرور اٹھائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ سےیہ شکایت کرے گا کہ واشنگٹن نے اس صورتِ حال میں اسلام آباد کو تنہا چھوڑ دیا ہے ۔ ان کےخیال میں اسلام آباد چاہے گا کہ امریکہ ماضی کی طرح کا کردار ادا کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان کی جانب سے در پیش صورتِ حال 2001 کے اتحاد کی وجہ سے ہے۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ اسلام آباد اپنے معاملات کابل کے ساتھ دو طرفہ طور پر حل کرے۔
طاہر خان کے بقول آرمی چیف کے دورۂ واشنگٹن سے دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعلقات بحالی کی طرف جائیں گے اور معطل سیکیورٹی امداد اور فوجی تربیت کے پروگرام بحال ہونے کی طرف بڑھیں گے۔
میاں ثناء اللہ نے کہا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعے کو آرمی چیف کے دورۂ امریکہ سے منسلک نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ دہشت گرد گروہ باقاعدہ نظم کے بجائے چھوٹے گروہوں کی صورت کام کرتے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ عاصم منیر اپنے دورۂ واشنگٹن میں افغانستان کی صورتِ حال اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تعاون پر ضرور بات کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی میں تعاون جاری ہے۔ حالیہ دورے میں اس بات کا اعادہ بھی کیا جائے گا اور مزید تعاون بھی سامنے آئے۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ اس عمل کے نتیجے میں امریکی افواج کی اس خطے میں دوبارہ واپسی ہوجائے گی۔
پاکستان کے افغان طالبان سے مطالبات
پاکستان کےدفترِ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغان ناظم الامور کو کہا گیا ہے کہ افغان عبوری حکومت کو فوری طور پر پاکستان کے مطالبات پہنچائے جائیں۔
بیان کے مطابق پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ افغان عبوری حکومت ڈیرہ اسماعیل خان کے حالیہ حملے کے مرتکب افراد کے خلاف مکمل تحقیقات اور سخت کارروائی کرے۔ افغان عبوری حکومت اعلیٰ حکومتی سطح پر اس حملے کی مذمت کرے اور تمام دہشت گرد گروہوں اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف فوری طور پر قابل تصدیق کارروائیاں کرے۔
پاکستان نے حملے کے مرتکب افراد اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کی قیادت کو پکڑ کر حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
بیان کے مطابق یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
واضح رہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کو مختلف کارروائیوں میں 27 ’دہشت گرد‘ مارے گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے جڑے ایک گروپ’ تحریک جہاد پاکستان‘ نے قبول کی ہے۔
خیال رہے کہ تحریک جہاد پاکستان نامی تنظیم کا نام رواں سال فروری میں پہلی بار سامنے آیا تھا۔
اس نے بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمے داری پہلی بار قبول کی تھی۔
فورم