اسرائیلی وزیر اعظم بینیامن نیتن یا ہو کی جانب سے عدالتی نظام میں کی گئی متنازعہ تبدیلیوں کی ایک اہم شق کو اسرائیلی سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا ہے۔ اس فیصلے نے اسرائیلی معاشرے میں اس تفریق کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ پیدا کردیا ہے جو حماس کے خلاف ملک کی جنگ سے پہلےپیدا ہوئی تھی۔
اس قانون کے بارے میں اختلافات اور تفریق کو ایسے وقت میں بڑی حد تک پس پشت ڈال دیا گیاتھاجب ملک کی پوری توجہ غزہ کی جنگ پر مرکوز ہوئی۔ جو حماس کی جانب سے سرحد پار سے ہونے والے خونریز حملے سے شروع ہوئی تھی۔
پیر کے روز کا یہ فیصلہ پھر سے ان کشیدگیوں کو بھڑکا سکتا ہے جنکے سبب حکومت کے خلاف مہینوں تک احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے اور جن سے حکومت کی دو شاخوں عدلیہ اور مقننہ کے درمیان ایک آئینی بحران کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس نے ملک کی طاقتور فوج کی ہم آہنگی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاتھا۔
نیتن یاہو کی جانب سے اس فیصلے پر کوئی فوری رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
سات کے مقابلے میں آٹھ کی اکثریت سے دئیے جانے والے اس فیصلے میں عدالت نے جولائی میں منظور کئے گئے ایک قانون کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا جو ججوں کو حکومت کے ایسے فیصلوں کو ختم کرنے سے روکتا ہے جنہیں وہ غیر معقول سمجھیں۔
گروپ کے چیئرمین ایلیاد شراگا نے کہا، " معقولیت کے معیار کو صرف ایسی حکومت ختم کرتی ہے جو غیر معقول طریقے سے کام کرتی ہے،اور جو غیر معقول اقدام کرتی ہے۔"
اسرائیل اور حماس کی جنگ سے پہلے، لاکھوں اسرائیلی حکومت کے خلاف ہفتہ وار مظاہروں میں سڑکوں پر نکل آئےتھے۔ ان مظاہرین میں فوجی ریزروسٹ اور فائٹر پائلٹ اور دیگر ایلیٹ یونٹوں کے ارکان بھی شامل تھے، ان کاکہنا تھا کہ اگر اوور ہال منظور ہو گیا تو وہ ڈیوٹی کے لیے رپورٹنگ بند کر دیں گے۔ ریزروسٹ اسرائیلی فوج کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
اسرائیل کے وزیر انصاف اور نیتن یا ہو کے اتحادی یاریو لیون نے جو اس تبدیلی کے معمار بھی تھے، یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی کہ یہ اتحاد کے اس جذبے کے خلاف ہے جسکی محاذ پر ہمارے فوجیوں کی کامیابی کے لئے اس وقت ضرورت ہے۔
اسرائیل کے وزیر انصاف نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری حوصلہ شکنی نہیں کرے گا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آیا حکومت مختصر مدت میں اپنے منصوبے کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔
ججوں نے تین کے مقابلے میں بارہ ووٹوں کی اکثریت سے یہ فیصلہ بھی دیا کہ انکے پاس ’بنیادی قوانین ‘ نامی قانون سازی کے ان بڑے حصوں کو جو ایک طرح سے اسرائیل کے آئین کے طور پر کام کرتے ہیں، ختم کر دینے کا اختیار بھی موجود ہے۔
یہ نیتن یا ہو اور انکے سخت موقف رکھنے والے اتحادیوں کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے، جنکا دعویٰ ہے کہ قانون سازی اور دوسرے اہم فیصلوں کی قانونی حیثیت پر حرف آخر کا حق قومی مقننہ کا ہونا چاہئیے نہ کہ ہائی کورٹ کا۔
ججوں نے کہا کہ اسرائیلی کینیسٹ یا پارلیمان مطلق یا قطعی اختیار کی مالک نہیں ہے۔
نیتن یا ہو کی حکومت ، پیر کے روز کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اور یوں ایک آئینی بحران کی راہ ہموار ہو جائے گی کہ حتمی اختیار کس کے پاس ہے۔
فورم