بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کی مسلسل چوتھی بار اقتدار تک رسائی کو سیاسی مبصرین بھارت کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ نے بنگلہ دیش میں پانچ روز قبل ہونے والے عام انتخابات کو غیر منصفانہ اور جانب دارانہ قرار دیا ہے۔ البتہ بھارت نے شیخ حسینہ کی کامیابی پر انہیں مبارک باد دی ہے۔
بھارت بنگلہ دیش کی عوامی لیگ اور شیخ حسینہ کو جنوبی ایشیا میں اپنا قریبی اتحادی سمجھتا ہے کیوں کہ نئی دہلی کے اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور چین سے سرحدی امور پر مسلسل تنازع چل رہا ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں قائم ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ میں خارجہ امور اور اسٹڈیز کے نائب صدر ہرش پنت کہتے ہیں کہ بھارت کے پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بنگلہ دیش میں دوستانہ حکومت سیکیورٹی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے۔
ہرش پنت کے مطابق بھارت کو خطے میں مشکل پڑوس کا سامنا ہے جہاں خطے میں چین اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے۔ ان حالات میں یہ ایک قدرتی امر ہے کہ نئی دہلی کے لیے شیخ حسینہ کو ڈھاکہ میں برسرِ اقتدار دیکھنا چاہتا ہے۔
متنازع الیکشن میں شیخ حسینہ کی کامیابی کے بعد نریندر مودی ان ابتدائی رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے شیخ حسینہ کی کامیابی پر مبارک باد دی تھی۔
نریندر مودی نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پر عزم ہے جب کہ شیخ حسینہ نے بھی پریس کانفرنس میں بھارت کو بنگلہ دیش کا ایک عظیم دوست قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ کے 2009 میں اقتدار میں آنے سے قبل بھارت کو بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں مشکلات کا سامنا تھا۔
شیخ حسینہ کے نئی دہلی سے تعلقات کے حوالے سے ہرش پنت کا کہنا تھا کہ وہ ایک ثابت قدم اتحادی ہیں۔
مبصرین کے مطابق بھارت کے لیے سب سے اہم اس کے اسٹرٹیجک مفادات ہیں۔ ان حالات میں شیخ حسینہ نئی دہلی اور بیجنگ سے تعلقات کو مہارت کے ساتھ متوازن انداز میں لے کر چل رہی ہیں۔
چین نے حالیہ برسوں میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک میں اپنی موجودگی کو بہت تیزی سے بڑھایا ہے۔ بنگلہ دیش نے 2016 میں چین کے اس منصوبے میں شمولیت اختیار کی تھی۔
چین بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر بنا رہا ہے جن میں پلوں کی تعمیر، بجلی گھروں کا قیام اور ریل کے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ فوجی ساز و سامان کے پرزہ جات فراہم کرنے والا ملک بھی ہے۔
نئی دہلی میں قائم جواہر لال یونیورسٹی میں اسکول آف انٹرنیشنل لا کے ڈین سری کانت کنداپلی کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں چین کے بعض منصوبے دوہری نوعیت کے ہیں جن پر نئی دہلی میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ان کے بقول بیجنگ بنگلہ دیش میں آب دوزوں کا اڈہ بنا رہا ہے جب کہ وہ ڈھاکہ کو دو آب دوزیں بھی دے چکا ہے۔
سری کانت کنداپلی نے مزید کہا کہ چین اور بنگلہ دیش کے درمیان دفاعی سطح پر کسی بھی قسم کی شراکت داری بھارت کے لیے خدشات کا سبب ہو سکتی ہے۔ بنگلہ دیش چین کے ساتھ اپنی شراکت داری کو ترقی کے لیے قائم تعلق قرار دیتا ہے اور وہ عمومی طور پر بھارت کے خدشات کو بھی محسوس کرتا ہے۔
واضح رہے کہ چین خلیجِ بنگال میں آب دوزوں کا اڈہ بنا رہا ہے جو بحیرۂ ہند میں ایک اہم راستہ ہے جہاں بھارت امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر چین کی پیش قدمی کو روکنے میں مصروف ہے۔
بنگلہ دیش بھارت کی تشویش کو کم کرنے کے لیے یہ مؤقف اختیار کرتا رہا ہے کہ اس کے چین کے ساتھ تعلقات دوستانہ ہیں لیکن ان میں ترجیح معاشی امور کو حاصل ہے۔
شیخ حسینہ کی کابینہ میں شامل رہنے والے عبد المیمن نے بھارتی اخبار ‘انڈیا ٹو ڈے‘ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بنگلہ دیش کسی بھی قسم کی امداد یا فنڈ لینے کے حوالے سے بہت محتاط ہے۔ اس لیے کسی کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ بنگلہ دیش چین کے زیرِ اثر آ سکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے اقتدار کا تسلسل نئی دہلی کے لیے راحت کا سبب ہے۔ کیوں کہ حالیہ مہینوں میں مالدیپ میں الیکشن کے بعد قائم ہونے والی چین کی حامی حکومت قائم ہوئی ہے۔ جس کے بعد نئی دہلی سے اس کے تعلقات میں کشیدگی آئی ہے۔
بھارتی ریاست کرناٹک میں قائم ’منی پال اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن‘ میں جیو پولیٹکس اور بین الاقوامی تعلقات کے اسسٹنٹ پروفیسر سنکلپ گرجر کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں بظاہر چین کی حامی یا بھارت مخالف خیالات موجود نہیں ہیں جس طرح کبھی سری لنکا میں ہم دیکھ چکے ہیں یا اس وقت نیپال میں ایسا ہو رہا ہے۔
بھارت کی شمال مشرق میں دور دراز ریاستوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی بنگلہ دیش کو اہمیت حاصل ہے کیوں کہ ان ریاستوں میں باغی گروہ متحرک رہتے ہیں۔ ان ریاستوں میں بعض کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں اس لیے یہاں کے باغی گروہ بنگلہ دیش میں پناہ گاہیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر سنکلپ گرجر کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ جب سے اقتدار میں آئی ہیں بھارت کی شمال مغربی ریاستوں میں مسائل میں واضح کمی دیکھی گئی ہے کیوں کہ وہ بنگلہ دیش کی سرزمین کو باغی گروہوں کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دیتیں۔
بنگلہ دیش کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا جس کی وجہ سے انتخابات کی ساکھ پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے ہزاروں کارکنان کو الیکشن سے قبل گرفتار کر لیا تھا۔ ان اقدامات کے سبب جمہوری عمل اور آمرانہ طرزِ حکومت کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
امریکہ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ نے اپنی رائے دیگر مبصرین کے سامنے رکھی ہے کہ یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھے اور یہ افسوس ناک ہے کہ ان انتخابات میں تمام جماعتوں نے حصہ نہیں لیا۔
بنگلہ دیش کے انتخابات کے حوالے سے بھارت اور امریکہ کے مؤقف مختلف ہیں۔ البتہ نئی دہلی مغربی ممالک کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ ڈھاکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھیں۔
نئی دہلی میں قائم جواہر لال یونیورسٹی میں اسکول آف انٹرنیشنل لا کے ڈین سری کانت کنداپلی کہتے ہیں کہ بھارت کو اس نازک توازن کو برقرار رکھنا ہوگا۔ لیکن بھارت مغربی ممالک اور ڈھاکہ میں برسرِ اقتدار شیخ حسینہ کے درمیان سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔