پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتیں اُمیدوار میدان میں لا رہی ہیں، ایسے میں اب بھی بڑی سیاسی جماعتوں کی ترجیح وہ اُمیدوار ہیں جو کئی دہائیوں سے انتخابات میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ انتخابی سیاست میں ایسے امیدواروں کے لیے 'الیکٹیبلز' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
'الیکٹیبلز' کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں چلے جائیں تو کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں۔
پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے جنوبی، وسطی اور شمالی علاقوں کے خانوادے، گدی نشین، اہم سیاسی گھرانوں کا شمار بھی الیکٹیبلز میں کیا جاتا ہے۔ اسی طرح صوبۂ سندھ کے دیہی علاقوں کے وڈیرے، بلوچستان کے سردار جب کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کی بااثر شخصیات بھی اسی فہرست میں آتے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات پر نظر دوڑائی جائے تو الیکٹیبلز کی بڑی تعداد کامیاب ہوتی رہی ہے اور حکومت سازی میں اُن کا کردار اہم رہا ہے۔ تاہم پاکستان میں 'ٹو پارٹی سسٹم' کے خاتمے یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے ہوتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے مقبولیت حاصل کی اور بعض ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت کے بعد نوجوان ووٹر بھی متحرک ہوا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ عام انتخابات کے لیے رائے دہنندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں نوجوان ووٹرز کا کردار اہم ہو گا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق آئندہ انتخابات میں 18 سے 35 برس کے پانچ کروڑ 70 لاکھ نوجوان ووٹرز حقِ رائے دہی کے اہل ہیں۔
کیا الیکٹیبلز کا اثرو رسوخ کم ہو رہا ہے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتحار احمد کہتے ہیں کہ فی الحال ایسی کوئی تحقیق نہیں جس سے پتا چلتا ہو کہ نوجوان ووٹرز نے الیکٹیبلز کی شکست میں اہم کردار ادا کیا ہو لیکن آئندہ انتخابات میں الیکٹیبلز کو نوجوان ووٹرز کی حمایت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ گزشتہ دو انتخابات کے دوران نوجوان ووٹرز کی بڑی تعداد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔ خاص طور پر جب 2013 میں پی ٹی آئی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی جس کا نتیجہ پولنگ اسٹیشنز پر نوجوان ووٹرز کی لمبی قطاروں کی صورت میں نظر بھی آیا، لیکن اسی انتخابات میں الیکٹیبلز کی بڑی تعداد کامیاب بھی ہوئی تھی۔
'دیہی علاقوں میں پارٹی ووٹ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ شہری حلقوں میں الیکٹیبلز اتنی اہمیت نہیں رکھتے اور دیہی حلقوں میں پارٹی ووٹ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ لہذٰا دونوں میں فرق ہے۔ لیکن الیکشن والے دن پاکستان میں کیا ہو گا اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ماضی میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ سن 2018 کے انتخابات میں ملتان سے نوجوان اُمیدوار سلمان نعیم نے قد آور سیاست دان اور 'الیکٹیبلز' کی فہرست میں شمار ہونے والے شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی، لہذٰا الیکشن والے دن کیا فضا بنتی ہے اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
اُن کے بقول شہری حلقوں کے ووٹ بینک کا بظاہر رجحان پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ الیکشن والے دن ووٹر باہر نکلتا ہے یا نہیں۔
'سیاسی تقسیم کا اثر نوجوان ووٹرز پر بھی پڑے گا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ نوجوان ووٹرز پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں دیہی اور شہری علاقے بھی شامل ہیں۔ اُن میں تعلیم یافتہ بھی ہیں اور کم تعلیم یافتہ بھی ہیں، لہذٰا معاشرے میں جو سیاسی تقسیم ہے اس کا لامحالہ اثر نوجوان ووٹرز پر بھی پڑے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام نوجوان ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں اور وہ الیکشن والے روز ایک ہی طرح کا ردِعمل دیں گے۔
اُن کے بقول ہو سکتا ہے کہ 30 فی صد نوجوان اپنے والدین یا بزرگوں سے مختلف سوچ رکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام نوجوان ووٹرز الیکٹیبلز کے خلاف ووٹ دیں گے۔
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں اب بھی زمینداروں کا اثر و رسوخ ہے جو نسل در نسل چلتا ہے جو الیکٹیبلز کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے۔
اُن کے بقول جب تک سیاسی جماعتیں دیہی علاقوں میں زیادہ منظم نہیں ہوتیں، اس وقت تک انتخابی سیاست میں الیکٹیبلز کا زور رہے گا۔
تجزیہ کار افتحار احمد کے بقول، "اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان ووٹرز کا رجحان اپنے بزرگوں سے مختلف ہے اور وہ اپنے خاندان میں بھی اس معاملے پر اختلاف کرتے رہے ہیں، لیکن فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ نوجوان 'الیکٹیبلز' کی سیاست کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ 1970 کے انتخابات میں نوجوانوں کا کردار سامنے آیا تھا۔ اس وقت ملک کے تعلیمی اداروں میں دائیں اور بازو کی سیاست عروج پر تھی جس کا عکس انتخابات میں نظر آیا تھا لیکن سابق فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور میں جب طلبہ تنظیموں پر پابندی لگی تو پھر نوجوانوں کا سیاست میں کردار بھی کم ہو گیا۔
افتخار احمد نے کہا کہ پی ٹی آئی دعویٰ کرتی ہے کہ نوجوان انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے، تاہم جب تک کوئی مستند ریسرچ سامنے نہیں آ جاتی، اس وقت تک یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
مجیب الرحمٰن شامی کے خیال میں سیاسی جماعتوں کو الیکٹیبلز کی ضرورت رہتی ہے جب کہ الیکٹیبلز کو بھی سیاسی جماعتوں کی ضرورت رہتی ہے کیوں کہ پارٹی کا ووٹ بھی اُنہیں مل جاتا ہے اور اُن کے لیے الیکشن جیتنا آسان ہو جاتا ہے۔
فورم