جنسی طور پر ہراساں کیے جانے، نشہ آور چیزیں، خودکشی اور خوراک کی خرابیاں، جسمانی خوبصورتی کے غیر حقیقی معیارات اور غنڈہ گردی جیسی چیزیں ان مسائل کا صرف ایک حصہ ہیں جن کا سامنا سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ ان خرابیوں کی روک تھام کے لیے سوشل میڈیا کی کمپنیاں کافی کچھ نہیں کر رہیں۔
بدھ کے روز میٹا، ٹک ٹاک، ایکس اور دوسری سوشل میڈیا کمپنیوں کے سی ای اوز سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کی سماعت میں پیش ہوئے اور سوشل میڈیا کے نوجوانوں پر اثرات کے بارے میں قانون سازوں اور والدین کے بڑھتے ہوئے خدشات پر بات کی۔
یہ سماعت بچوں اور والدین کی ریکارڈ شدہ شہادت کے ساتھ شروع ہوئی جن کا کہنا تھا کہ ان کا یا ان کے بچوں کا سوشل میڈیا پر استحصال کیا گیا۔
کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس سماعت کے دوران ان والدین نے جن کے بچوں نے خودکشی کر لی تھی، ہمیشہ کے لیے بچھڑنے والے اپنے بچوں کی تصویریں اٹھائی ہوئی تھیں۔
امریکی سینیٹ کے اکثریتی وہپ ڈگ ڈربن نے، جو اس کمیٹی کے سربراہ ہیں، اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ یہ کمپنیاں ان بہت سے خطرات کی ذمہ دار ہیں جن کا سامنا ہمارے بچوں کو آن لائن کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منافع کے حصول اور اپنے پروگراموں کے ڈیزائن کے انتخاب میں حفاظتی اقدامات پر مناسب سرمایہ کاری نہ کیے جانے نے ہمارے بچوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
سوال جواب کے سیشن میں میسوری سے ریپبلکن سینیٹر جاش ہولی نے میٹا کے سی ای او زکربرگ سے پوچھا کہ کیا انہوں نے متاثرین اور ان کے خاندانوں میں سے کسی کو ذاتی طور پر معاوضہ دیا ہے؟
جس پر زکربرگ کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا نہیں لگتا۔
ہولی نے کہا کہ کیا آپ ان سے معافی مانگنا چاہیں گے؟ جس پر زکربرگ نے سماعت میں شرکت کرنے والے والدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ہر اس چیز کے لیے افسوس ہے جس سے آپ گزرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے پوری صنعت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔
لیکن بچوں کے والدین اور بچوں کے حقوق کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں کوئی بھی کمپنی خاطر خواہ کام نہیں کر رہی۔
سینیٹ کے جوڈیشری پینل میں ریپبلکن رکن ساؤتھ کیرولائنا کے سینٹر لنزی گراہم نے کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ اس مسئلے پر برسوں کام کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کمپنیاں فی الحال خطرناک پراڈکٹس ڈیزائن کر رہی ہیں اور ان پر کام کر رہی ہیں۔
ٹک ٹاک کے سی ای او شاو زی چیو نے کہا کہ ان کی کمپنی 13 سال سے کم عمر بچوں کو اپنے ایپ کے استعمال سے روکنے کے لیے پوری طرح چوکس ہے۔
امریکن میڈیا ایگزیکٹو لنڈا یاکرین کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی اسٹاپ سی ایس اے ایم ایکٹ کی حمایت کرے گی۔ یہ ایک وفاقی بل ہے جو بچوں کا استحصال کرنے والے افراد کے لیے ٹیک کمپنیوں کے خلاف مقدمہ کرنے کو آسان بناتا ہے۔
اس کے باوجود بچوں کی صحت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں نابالغوں کی حفاظت میں بار بار ناکام رہی ہیں۔
نوجوانوں کی قیادت کے ایک ایڈوکیسی گروپ "ڈیزائن اٹ فار اس" کے شریک چیئرپرسن زمان قریشی نے کہا کہ جب آپ کو تحفظ اور رازداری سے متعلق فیصلے کرنے پڑیں تو آمدنی کو سب سے آخری عنصر ہونا چاہیے۔
میٹا نے حالیہ ہفتوں میں بچوں کی حفاظت سے متعلق اپنے اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں اس نے اعلان کیا تھا کہ اس نےانسٹاگرام اور فیس بک پر نوجوانوں کے اکاؤنٹس میں نامناسب مواد کو پوشیدہ رکھنا شروع کر رہا ہے جن میں خودکشی، خود کو نقصان پہنچانے ، مضر صحت خوراک کے بارے میں مواد شامل ہے۔
اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بچوں کے لیے پیغامات کی وصولی پر حفاظتی انتظامات بڑھا رہا ہے اور وہ ان بالغوں کی جانب سے پیغامات وصول نہیں کر سکیں گے جن سے وہ فیس بک اور انسٹاگرام پر رابطے میں نہیں ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق بدھ کو ہونے والی سینیٹ کی سماعت میں بلائی جانے والی ٹیک کمپنیوں میں گوگل کا پلیٹ فارم یوٹیوب موجود نہیں تھا۔ جب کہ ریسرچ سینٹر کے مطابق 93 فی صد امریکی نوجوان یوٹیوب استعمال کرتے ہیں، اور ٹک ٹاک 63 فی صد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم