رسائی کے لنکس

شہباز شریف کی کابینہ: ’سیاسی جماعتوں کے ساتھ مقتدرہ کی شراکت بھی دکھائی دیتی ہے‘


  • وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 19رکنی کابینہ تشکیل دی ہے۔
  • سیاسی مبصرین کے مطابق کابینہ میں اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ افراد کو اہم ترین وزاتیں دی گئی ہیں۔
  • تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ کابینہ میں شہباز شریف کی مفاہمت کی سوچ کے حامی افراد زیادہ ہیں۔

پاکستان کے نو منتخب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 19 رکنی کابینہ تشکیل دے دی ہے جس میں بعض نئے چہروں اور ٹیکنوکریٹس کے علاوہ زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے رہنما شامل ہیں۔

شہباز شریف کی وزیرِ اعظم کی حیثیت سے یہ دوسری کابینہ ہے جس میں اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔ اس کابینہ میں صرف ایک خاتون وزیرِ مملکت ہیں جب کہ اقلیتوں کی نمائندگی نہیں ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے بھی صرف ایک ایک وزیر ہی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔

بعض سیاسی مبصرین کے مطابق شہباز شریف کی کابینہ میں اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ افراد کو اہم ترین وزارتیں دی گئی ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کو مقتدرہ کی حمایت حاصل ہے۔

سینئر تجزیہ کار سجاد میر کہتے ہیں کہ موجودہ کابینہ میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کی شراکت بھی دکھائی دیتی ہے اور وفاقی کابینہ کی تشکیل مشکل معاشی فیصلے، امن و امان کے قیام اور سیاسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

سجاد میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کی سب سے بڑی مثال اسحاق ڈار کا وزیرِ خزانہ نہ بننا ہے جو کہ نواز شریف کے تمام ادوار میں خزانہ کے امور دیکھتے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ معیشت کے ماہر معیشت محمد اورنگزیب کو وزیرِ خزانہ بنانے سے دکھائی دیتا ہے کہ حکومت معاشی مشکلات اور آئی ایم ایف سے معاملات کو سنجیدگی سے لینا چاہتی ہے۔ انہیں ادراک ہے کہ اسحاق ڈار کی پالیسیاں موجودہ حالات میں کام نہیں کر پائیں گی۔

سیاسی امور کے تجزیہ کار اور اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے وابستہ طاہر نعیم ملک کہتے ہیں کہ موجودہ کابینہ میں شہباز شریف کی مفاہمت کی سوچ کے حامی افراد زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف کے قریب تصور کیے جانے والے رہنماؤں کی نمائندگی بہت کم ہے۔

طاہر نعیم ملک نے کہا کہ شہباز شریف کی گزشتہ حکومت میں خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، جاوید لطیف کی صورت میں نواز شریف کے بیانیے کے حامی افراد کی خاصی تعداد کابینہ میں شامل تھی جو کہ موجودہ کابینہ میں مائنس ہو گئے ہیں۔

ان کے بقول اس کے علاوہ کابینہ میں نگراں حکومت کا بھی کچھ تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ مختلف امور کے ماہر افراد کو بھی اہم وزارتیں تفویض کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب رمدے اور وزیرِ داخلہ محسن نقوی کو قومی سلامتی کے اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

وفاقی وزرا میں خواجہ آصف، احسن اقبال، قیصر احمد شیخ، ریاض حسین پیرزادہ، رانا تنویر حسین، چوہدری سالک حسین، عبد العلیم خان، اعظم نذیر تارڑ، جام کمال، امیر مقام، سردار اویس لغاری، عطا اللہ تارڑ، خالد مقبول صدیقی، جنید انوار ،اسحاق ڈار اور مصدق احمد ملک شامل ہیں جب کہ شیزا فاطمہ خواجہ کا بطور وزیرِ مملکت تقرر کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔

شہباز شریف کی نئی کابینہ گزشتہ 16 ماہ کی حکومت سے کیسے مختلف ہو گی اس بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں شہباز شریف زیادہ مضبوط وزیرِ اعظم ہیں اور کابینہ میں بھی انہیں ہم خیال لوگوں کی وجہ سے کم مشکلات کا سامنا رہے گا۔

تجزیہ کار سجاد میر نے کہا کہ شہباز شریف کی پچھلی حکومت خاصی مشکلات کے ماحول میں بنی تھی جس سے سنبھلتے سنبھلتے ان کی 16 ماہ کی مدت مکمل ہو گئی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب حکومت کو پانچ سال کی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے آنا ہو گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو بدترین معاشی صورتِ حال کے علاوہ دہشت گردی اور سیاسی انتشار کی صورتِ حال کا بھی سامنا ہے جن سے بیک وقت نمٹنا بہت آسان نہیں ہو گا۔

تجزیہ کار طاہر نعیم ملک کہتے ہیں کہ نئی حکومت نگراں حکومت کے اصلاحات کے عمل کو آگے لے کر چلے گی اور اداروں سے بہتر تعلقات رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ کابینہ میں شہباز شریف پر اتحادیوں کا بوجھ بھی کم ہے اور ان کے ہم خیال لوگ بھی زیادہ ہیں جسے دیکھتے ہوئے انہیں زیادہ سمجھوتے نہیں کرنے پڑیں گے۔

کیا یہ اتحادی حکومت اپنی مدت مکمل کر پائے گی؟ اس بارے میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اداروں سے تعاون کے ساتھ ساتھ حکومت سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے کے نتیجے میں ہی پانچ سال چل سکے گی۔

سجاد میر نے کہا کہ حکومت کتنے عرصے چلے گی اس کا فیصلہ آئندہ چار پانچ ماہ کے حالات سے ہو جائے گا۔

ان کے بقول حکومت حریف سیاسی جماعت سے مفاہمت تو چاہتی ہے۔ لیکن مخالف جماعت کے مزاج کو دیکھتے ہوئے ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس صورت حال میں حکومت کو سیاسی تقسیم سے نمٹنا ہے جس کے لیے دیکھنا ہو گا کہ حکومت بات چیت سے نمٹتی ہے یا طاقت کا استعمال کرتی ہے۔

سجاد میر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی بہتری اسی میں ہو گی کہ موجودہ حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے دیے جائیں۔ کسی نئے تجربے کی صورتِ حال عدم استحکام اور بے یقینی میں مزید اضافہ کرے گی۔

طاہر نعیم ملک کہتے ہیں کہ حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقتدرہ سے اچھے تعلقات برقرار رکھے اور تعاون کا سلسلہ جاری رہے۔ اس وقت حکومت کے اسٹیبلشمنٹ سے مثالی تعلقات ہیں۔ لیکن ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ مدت کے وسط میں آ کر حکومت اور فوج کے درمیان تعاون جاری نہیں رہتا جس کے باعث بحران پیدا ہو جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پہلے سے سیاسی تقسیم کے شکار ملک میں کوئی ایک واقعہ یا حادثہ موجودہ صورتِ حال کو تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ حکومت پارلیمانی طریقے سے سیاسی تقسیم کو کم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ محاذ آرائی جاری رہی تو حکومت کے لیے مدت مکمل کرنا مشکل ہو گا۔

واضح رہے کہ 1986 کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے اپنی مدت مکمل نہیں کی۔ البتہ گزشتہ تین اسمبلیوں نے اپنی مدت مکمل کی ہے۔

XS
SM
MD
LG