رسائی کے لنکس

کیا رفح پر ممکنہ اسرائیلی حملہ امریکی ہتھیاروں کی فراہمی محدود کرنےکا سبب بن سکتا ہے؟


امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات، فائل فوٹو
امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات، فائل فوٹو
  • صدر بائیڈن خود کو وزیر اعظم نیتن یاہو سے دور کرتے جا رہے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
  • وزیر اعظم نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ انہیں اسرائیلی عوام کی حمایت حاصل ہے۔
  • رفح کے بارے میں امریکی موقف پر صدر بائیڈن بالکل واضح ہیں۔

متعدد بار مایوسی کے بڑھتے ہوئے زبانی اظہار، اور میڈیا میں آنے والی رپورٹوں سے ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن خود کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے دور کرتے جا رہے ہیں۔

تاہم وہ اس عزم کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ بین الاقوامی دباؤ اسرائیل کو حماس کے خلاف اس جنگ میں مکمل فتح حاصل کرنے سے باز نہیں رکھ سکے گا۔

یہ اختلاف ان قیاس آرائیوں کو ہوا دے رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے لیے امریکی ہتھیاروں کی سپلائی محدود کر دے۔ خاص طور پر اس صورت میں اگر نیتن یاہو حماس کے خلاف رفح میں اپنی کارروائی مکمل کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں جہاں دس لاکھ سے زیادہ بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔

اس جنگ میں اسرائیل کے طرز عمل پر اثر ڈالنے کے لیے فوجی امداد پر شرائط عائد کرنا، واشنگٹن کا مضبوط ترین حربہ ہو گا، جس میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 31 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

ایسے میں جب کہ امریکی میڈیا نے حکومت کے بے نام ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ اس آپشن پر غور کر رہے ہیں، سرکاری طور پر وائٹ ہاؤس نے ان مفروضوں پر کچھ کہنے سے انکار کردیا ہے۔

منگل کو وائٹ ہاؤس کی بریفنگ کے دوران قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ رفح کے بارے میں ہمارا جو موقف ہے صدر اس کے بارے میں بالکل واضح ہیں۔ رفح میں ایک ایسی فوجی کارروائی جس میں شہریوں کا تحفظ نہ ہو سکے، جو انسانی امداد کے اہم راستوں کو کاٹ دے اور جو اسرائیل اور مصر کی سرحد پر بے تحاشا دباؤ ڈالے، کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی صدر حمایت کر سکیں۔

بائیڈن خود اس بارے میں ابہام کا شکار تھے کہ آیا رفح پر حملہ ایک سرخ لکیر کو کراس کرنے کے مترادف ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس طریقہ کار کے لیے نیتن یاہو حکومت کی سرزنش بھی کی جو اس نے سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں کے حملے کے بعد اس کے خلاف کارروائی کے لیے اختیار کیا۔

سات اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں 12 سو کے لگ بھگ لوگ مارے گئے اور 240 سے زیادہ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

بائیڈن نے ایم ایس این بی سی کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کا دفاع اب بھی نازک اہمیت کا حامل ہے، اس لیے وہاں کوئی سرخ لکیر نہیں ہے، جہاں میں تمام ہتھیاروں کی فراہمی روک دوں اور ان کے پاس اپنی حفاظت کے لیے’ آئرن ڈوم‘ نہ ہو۔

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل 30 ہزار مزید فلسطینیوں کو ہلاک نہیں کر سکتا۔ گزشتہ ہفتے ایک ڈیمو کریٹک سینیٹر سے گفتگو کرتے ہوئے جسے ایک کھلے ہوئے مائیکروفون پر سنا گیا صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے نیتن یاہو کو بتا دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ دو ٹوک گفتگو کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اور جب ایک معاون نے ان کو بتایا کہ انہیں سنا جا سکتا ہے تو انہوں نے کہا اچھا ہے یہ اچھی بات ہے۔

نیتن یاہو پر بائیڈن کی بڑھتی ہوئی تنقید ایسے میں ہو رہی ہے جب نومبر کے صدارتی انتخاب کے لیے ان کی مہم میں تیزی آتی جا رہی ہے۔

وہ ریپبلیکنز کو اسرائیل کے حامی ووٹ حاصل کرنے کا موقع دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن انہیں ترقی پسند ڈیموکریٹس، نوجوان ووٹروں، مسلمانوں اور عرب امریکیوں کو بھی خود سے دور ہونے سے روکنا ہے۔

نیتن یاہو پر ان کی تنقید فلسطینیوں کےحامی امریکیوں کو خوش نہیں کر سکتی، خاص طور پر ایسی صورت میں جب جلد ہی جنگ بندی نہ ہو پائے۔

نیتن یا ہو کے جوابی حملے

بائیڈن کی اس تنقید کے جواب میں کہ نیتن یاہو اسرائیل کی مدد سے زیادہ اسے نقصان پہنچا رہے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم نے پولیٹیکو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ انہیں اسرائیلی عوام کی حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا اگر بائیڈن کا مطلب یہ ہے کہ میں اکثریت کے خلاف ذاتی پالیسی پر عمل کر رہا ہوں، اکثریت کی خواہش کے خلاف، اور یہ کہ اسرائیل کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے تو وہ دونوں باتوں میں غلط ہیں۔

اسرائیل کے ڈیمو کریسی انسٹیٹیوٹ کے ایک عوامی جائیزے کے مطابق صرف 15 فیصد اسرائیلی چاہتے ہیں کہ نیتن یاہو جنگ کے بعد اقتدار میں رہیں۔

نیتن یا ہو پر عدم اعتماد

امریکہ کی نیشنل انٹیلیجینس کے ڈائریکٹر کے دفتر سے اس ہفتے کے اوائل میں جاری ہونے والے خطرے کے سالانہ جائزے کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے حکومت کرنے کی نیتن یاہو کی صلاحیت کے بارے میں عدم اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وائس آف امیریکہ کی Patsy Widakuswara کی رپورٹ

فورم

XS
SM
MD
LG