|
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کے اراکین نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے یہ اقدام ملک کو در پیش معاشی مشکلات کے پیشِ نظر سرکاری اخراجات میں کمی لانے کے لیے کیا ہے۔
بدھ کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے اعلامیے کے مطابق کابینہ اراکین کا تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ حکومتی سطح پر کفایت شعاری کی ترویج کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
اس سے قبل صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے بھی خراب معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر عہدے پر اپنی مدت کے دوران تنخواہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم اور وفاقی کابینہ کی جانب سے اپنی تنخواہیں اور مراعات چھوڑنے کا فیصلہ اگرچہ قابلِ ستائش ہے۔ لیکن حکومت کے اخراجات کے مقابلے میں بہت کم ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کفایت شعاری کے اقدامات
کفایت شعاری کے اقدامات کے تحت کابینہ کے اراکین کو سال میں تین بین الاقوامی دوروں تک محدود اور مختلف عہدیداروں کے لیے سفری کلاس کا بھی تعین کیا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے ارکان اور سرکاری حکام ناگزیر وجوہات کی صورت میں ہی بیرونِ ملک دورہ کرسکیں گے اور وزرا، مشیر، معاونین، سرکاری افسران کے سال میں صرف تین دورے ہو سکیں گےجب کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کر سکیں گے۔
وفاقی کابینہ کے فیصلوں کی روشنی میں کابینہ ڈویژن کے جاری کردہ ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ پالیسی کے تحت وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، مشیروں اور معاونین خصوصی کو بیرونِ ملک دوروں کے لیے وزیرِ اعظم کی اجازت درکار ہوگی۔
معاشی ماہرین سمجھتے ہیں کہ معیشت کو دلدل سے نکالنے کے لیے کفایت شعاری کے علامتی اشارے زیادہ کارگر نہیں ہوں گے بلکہ حکومت کو پائیدار معاشی بحالی کے لیے ترجیحات اور اخراجات کا از سر نو بنیادی جائزہ لینا چاہیے۔ تب ہی قوم اپنی معاشی حالت بہتر کرنے، استحکام اور خوش حالی کے حامل مستقبل کی جانب گامزن ہونے کی امید کر سکتی ہے۔
’اخراجات کم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی‘
سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ صدر، وزیرِ اعظم اور وفاقی کابینہ کا تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا اعلان اچھی علامت ہے۔ تاہم اس کے بگڑی ہوئی معیشت پر بہت کم اثرات ہوں گے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ کا کفایت شعاری کا اعلان اس بات کا اعادہ ہے کہ حکومت معاشی مشکلات کو حل کرنا چاہتی ہے۔ تاہم اس میں سنجیدہ کوشش اس وقت نظر آئے گی جب حکومت خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری کی طرف جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ کفایت شعاری کے چھوٹے اقدامات سے معیشت کو زیادہ سہارا نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے حکومت کو مستقبل بنیادوں پر حکومتی اخراجات کو کم کرنے کے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
حفیظ پاشا کے بقول سرکار کے زیرِ انتظام چلنے والے ادارے سالانہ 1500 ارب روپے کا خسارہ کرتے ہیں اور اسی طرح ملازمین کی پینشن کی مد میں 1400 ارب روپے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
’فوجی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو قرض لینا ہوتا ہے‘
انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتِ حال یہ ہے کہ اس وقت فوجی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو قرض لینا ہوتا ہے۔
حفیط پاشا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو معیشت کو سنبھالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے جس کا آغاز 18 ویں آئینی ترمیم میں صوبوں کو منتقل ہونے والی وزارتوں اور اداروں کو وفاق کی سطح پر ختم کرکے کیا جاسکتا ہے۔
ان کے بقول صرف اس اقدام سے وفاق سالانہ 1000 سے 1500 ارب روپے کا خسارہ کم کرسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اداروں کی نجکاری کے معاملے پر اتحادی حکومت میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا کیوں کہ پیپلز پارٹی اس کے خلاف ہے تو یہ مسئلہ باقی رہے گا۔
’حکومت کو اخراجات کم اور آمدن بڑھانی ہوگی‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ کفایت شعاری کا یہ اشارہ مالیاتی غیر ذمہ داری کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت کم کام کرتا ہے جس کی وجہ سے ہماری موجودہ معاشی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔
معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد کہتے ہیں کہ وفاقی کابینہ کا تنخواہیں نہ لینا عوام اور ٹیکس دہند گان کے لیے مثبت پیغام ہے۔ لیکن اصل کام حکومتی اخراجات کو کم کرنا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 600 ارب روپے کے سالانہ وفاقی اخراجات میں وزرا کا تنخواہیں نہ لینا بہت زیادہ اثر نہیں رکھتا ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں جب حکومت کی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت اپنے حجم کو کم اور شاہانہ طرزِ عمل کو ترک کرنا ہوگا جس سے عوام کو مثبت پیغام جائے گا اور قوم مجموعی طور پر کفایت شعاری کی طرف بڑھے گی۔
خرم شہزاد نے کہا کہ تنخواہیں نہ لینے کے دکھاوے جیسے اعلانات کے ساتھ ساتھ حکومت کو توانائی کے گردشی قرضوں کو کم کرنا، ٹیکس کو بڑھانا، مہنگائی میں کمی اور سرمایہ کاری میں اضافے جیسے اقدمات کے ذریعے عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی عمران خان اور شہباز شریف کی حکومت نے کفایت شعاری کے اعلانات کیے۔ تاہم اس پر خاص عمل نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑا۔