رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا میں غیر معمولی بارشیں: 'موسمیاتی تبدیلی دہشت گردی سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے'


  • خیبرپختونخوا حکومت نے غیر معمولی بارشوں کے پیشِ نظر 30 اپریل تک ایمرجینسی نافذ کر رکھی ہے۔
  • موسمِ بہار میں غیر متوقع بارشیں موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے: محکمۂ موسمیات
  • موسمیاتی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز بھی ابنارمل برتاؤ کرنے لگے ہیں: ماہرین
  • خیبرپختونخوا میں موسمیاتی تبدیلیاں اب دہشت گردی سے بھی زیادہ بڑا خطرہ بن رہی ہیں: ماہرین

پاکستان میں حالیہ بارشوں نے صوبۂ خیبرپختونخوا میں بڑے پیمانے پر شہریوں کو جانی و مالی نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق مجموعی طور پر صوبے میں 12 اپریل سے 21 اپریل تک 60 افراد سے زائد ہلاک جب کہ درجنوں افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

پی ڈی ایم اے نے آٹھ اضلاع چترال، اپر اور لوئر دیر، سوات، کوہستان اپر اور لوئر اور مانسہرہ کے علاوہ کرم میں بھی گلیشیئرز کی جھیلوں کے پھٹنے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان جھیلوں کی مسلسل نگرانی کریں۔

محکمۂ موسمیات نے 21 اپریل تک طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ حکومت کی جانب سے موسمیاتی صورتِ حال کے باعث 30 اپریل تک ایمرجینسی نافذ کی گئی ہے۔

پشاور کے محکمۂ موسمیات میں نگرانی کے لیے ایک شعبہ مختص کیا گیا ہے۔

ڈپٹی فارکاسٹنگ آفیسر (ڈی ایف او) غلام فاروق مسلسل اپنی ویب سائٹ کو ڈیٹا سے اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان: گلیشیر پھٹنے کا انتباہ کیوں جاری کیا گیا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:55 0:00

غلام فاروق کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ امید ہے کہ 21 اپریل تک خیبرپختونخوا کے موسم میں بہتری آ جائے گی۔ تاہم گلگت بلتستان کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر لمحہ لمحہ صورتِ حال کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ اُن کے بقول 30 اپریل تک صوبے میں ایمرجینسی نافذ کی گئی ہے۔

موسمِ بہار میں طوفانی بارشیں کیا ماحولیاتی تغیر کا شاخسانہ ہے؟

خیبرپختونخوا کے ماہرین موسمیات اور آبی مسائل پر کام کرنے والوں کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار اپریل میں اتنی بارشیں ہوئی ہیں۔

محکمۂ انہار کے افسر ایگزیکٹیو انجینئر شیرین خان کا ماننا ہے کہ 75 برسوں میں موسم بہار میں اتنی بارشیں کم ازکم ان کے ریکارڈ میں تو نہیں ہوئیں۔

شیرین خان کا کہنا تھا کہ پہلی بار اپریل میں ہم دریائے کابل میں دو لاکھ 11 ہزار کیوسک پانی دیکھ رہے ہیں۔ اپریل میں ہلکی معمول کی بارشیں زمین میں پانی کی سطح بہتر کرنے میں مددگار ہوتی تھیں کیوں کہ زمین کو پانی جذب کرنے کا موقع ملتا۔ اب بارش سیلابی شکل اختیار کر کے زمین کو برباد کر رہی ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ہم ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاری سے آگاہ نہیں ہیں حالاں کہ ہم ایک سنگین صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب گرمیوں میں گلوف (گلیشئیر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ) یعنی پھٹتے گلیشیئرز سے جنم لینے والے سیلابی ریلوں یا فلیش فلڈ کی تلوار لٹکنے والی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر جن موسمیاتی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے وہ سامنے آئے تو اس بار خیبرپختونخوا کے نو دریاؤں کابل، سوات، چترال، پنجکوڑہ، کنڑ، سران، باڑہ، کرم اور گومل میں بیک وقت ہمیں سیلابی ریلوں کا سامنا کرنا پڑے گا، فرق صرف اتنا ہو گا کہ ہائی لیول یا لو لیول سیلاب ہوں گے لیکن سیلاب ضرور آئیں گے۔

گلوف کیا ہے؟

گلوف کا مطلب دراصل وہ جھیل ہے جو گلیشیئر کے پانی سے بھرا ہو اور یکایک کہیں سے بھی پھٹ کر سیلابی ریلے کی طرح بہنا شروع کر دے۔

پاکستان کی وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی اور رابطہ کاری کی ویب سائٹ کے مطابق شمالی پاکستان میں ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں پر برف پگھل رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں گلیشیئرز کے پانی سے تین ہزار 44 جھیلیں جنم لے چکی ہیں۔ ویب سائٹ پر درج ہے کہ ان میں سے 33 ایسی جھیلیں ہیں جو گلوف کا باعث بن کر تباہی مچا سکتی ہیں۔ ان کے تخمینے کے مطابق خیبرپختونخوا اور گلگت کی 70 لاکھ سے زائد آبادی اس خطرے کا شکار ہو سکتی ہے۔

گلیشیئرز کا ابنارمل برتاؤ

قراقرم یونیورسٹی شعبۂ ماحولیاتی سائنس سے وابستہ ارم بانو خصوصی طور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گلیشیئرز کی تحقیق سے وابستہ ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ان علاقوں کے گلیشیئرز ابنارمل برتاؤ کرنے لگے ہیں۔ یہاں عجیب صورتِ حال اس وجہ سے ہے کہ دوران تحقیق ہم پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ قراقرم کی جو بلند چوٹیاں ہیں ان پر برف بڑھتی جا رہی ہے جب کہ نیچے انڈس کے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ ایسے میں صرف گلوف نہیں بلکہ فلیش فلڈ یا بھاری تعداد میں ان پہاڑی دروں میں جو پانی گرتا ہے اس سے کئی بار بڑے پیمانے پر تباہی ہو چکی ہے۔

گلگت اور خیبرپختونخوا میں موسمیاتی تغیر کس حد تک تباہ کن ہو گا؟

ماحولیاتی تبدیلی پر برسوں سے کام کرنے والے محقق اور صحافی داؤد خان کا کہنا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی نے بلاشبہ بڑے سانحات کو جنم دیا ہے۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلی جتنے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا رہی ہے، وہ دہشت گردی سے زیادہ ہے۔

گلگت بلتستان: 'دریا رُخ بدل کر ہمارے گھروں تک آ گیا ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:58 0:00

داؤد خان کا کہنا تھا کہ عموماً دہشت گردی یا سیلاب کی تباہ کاریوں کو ہم اعداد وشمار کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ لیکن ان غیر معمولی بارشوں اور ریکارڈ گرمیوں نے یہاں کی حیاتیات کو جتنا متاثر کیا ہے، اس پر میڈیا میں کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول آئندہ چند برسوں میں ہمیں پانی کی قلت اور فوڈ سیکیورٹی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خیبرپختونخوا میں اربوں ڈالرز کی تمباکو کی کاشت متاثر ہوئی ہے۔ اس طرح یہاں کے پھل، سبزیاں، قابل کاشت اراضی سب کچھ درہم برہم ہوگیا ہے۔

شسپر گلیشیئر متاثرین کس حالت میں ہیں؟

سن 2018 سے گلگت میں شسپر گلیشیئر مسلسل پگھل رہا ہے اور 2021 میں گلوف کے باعث حسن آباد کی آبادی اس سے بری طرح متاثر ہوئی۔ یہاں کے لوگوں کو یہاں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ گو کہ حکومت نے کچھ مالی امداد کی تاہم اس کے باجود متاثرین حسن آباد تاحال سراپا احتجاج ہیں۔

شسپر گلیشیئر حسن آباد متاثرین ترجمان جاوید راہی کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ان کی زندگیاں بدل چکی ہیں۔ ان کے بچے علاقے میں قائم اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے۔ زندگی خوشحال تھی لوگوں کے اپنے کاروبار تھے۔

جاوید راہی کا کہنا تھا کہ اب زیادہ تر بچے سرکاری اسکول فاصلے پر ہونے کے باعث اسکول یا تو جاتے نہیں یا آئے روز بیچ راستے سے لوٹ آتے ہیں۔ جن کے کاروبار تباہ ہوئے اب وہ مزدوری پر مجبور ہیں۔ حکومت نے سیاسی بنیادوں پر امداد دی جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے بہتر طریقے سے مدد غیر سرکاری تنظیموں نے کی۔

انہوں نے کہا کہ جتنے فنڈز غیر ضروری طور پر لگائے جا رہے ہیں اگر یہ گلیشیئرز اور سیلابی ریلوں والے علاقوں میں رہنے والوں کی محفوظ مقامات پر بستیوں پر لگائے جاتے تو اس وقت ان علاقے کے باشندوں میں جو خوف پایا جا رہا ہے وہ نہ ہوتا۔

پاکستان میں موسمیاتی تغیر پر عالمی برادری کیا کر رہی ہے؟

عالمی سطح پر یہ مانا جاتا ہے کہ پاکستان عالمی ماحولیاتی آلودگی سے بری طرح متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے پاکستان کے شمالی علاقوں میں کئی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

سن 2022 کے تباہ کن سیلاب میں جہاں سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے وہاں پاکستان کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بعد پاکستان نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ گو کہ پاکستان عالمی آلودگی میں 0.5 فی صد آلودگی کا مؤجب ہے لیکن اسے ماحولیاتی آلودگی کی بدترین شکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا ماحولیاتی انصاف کے تحت ان کو بھرپور مدد فراہم کی جائے۔

گلگت بلتستان کی سرحد پڑوسی ملک چین سے لگتی ہے۔ پاکستان اور چین کے مشترکہ میگا پراجیکٹ سی پیک کو گلگت میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بھی پرکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے گلگت بلتستان حکومت نے انوائرمینٹل اسسمنٹ سیل بھی قائم کیا ہے جو سی پیک پر ٹریفک اور اس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ برس گلگت بلتستان حکومت کے ایک وفد نے چین کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران وفد نے چینی حکومت کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ اس منصوبے کے تحت چین گلگت بلتستان حکومت کو اونچے پہاڑی علاقوں میں کاشت کاری کی ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔

اس وفد میں شامل گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن امجد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ان انہوں نے گلگت بلتستان میں زراعت کے شعبے میں ترقی کے لیے ایک مفاہمتی قرارداد پر دستخط کیے تھے۔

امجد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ دنوں میں مشینری پہنچ جائے گی جس کے بعد اس منصوبے پر کام شروع کیا جائے گا۔ ابھی اس پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے لیکن امید ہے کہ جیسے ہی یہ ٹیکنالوجی گلگت بلتستان حکومت کو ملتی ہے اس پر جلدازجلد کام شروع کیا جائے گا۔"

تاہم ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ موسمیاتی تغیر گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG