|
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیموں کے نئے کوچز کا اعلان کر دیا ہے۔ سابق جنوبی افریقی کھلاڑی گیری کرسٹن پاکستان کی وائٹ بال جب کہ سابق آسٹریلوی پیسر جیسن گلیسپی ٹیسٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہوں گے۔
دونوں غیر ملکی کوچز کی تینوں فارمیٹ میں دو، دو سال تک معاونت کے لیے سابق آل راؤنڈر اظہر محمود کا انتخاب کیا گیا ہے جن کی کوچنگ میں پاکستان ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز برابر کی۔
جیسن گلیسپی اگست میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والی ٹیسٹ سیریز سے قبل ٹیم کو جوائن کریں گے جب کہ گیری کرسٹن کا پہلا اسائنمنٹ انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز ہو گی۔
یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے وائٹ بال اور ریڈ بال فارمیٹ کے لیے الگ الگ کوچز کا اعلان کیا ہے۔ ٹیم کی باگ دوڑ سنبھالنے والے دونوں کوچز نے لمبے عرصے تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی اور انٹرنیشنل ٹیموں کی کوچنگ کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں جیسن گلیسپی نے ریڈ بال ٹیم کی ذمہ داریاں ملنے کو ایک اعزاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ پاکستان ٹیم ان کی کوچنگ میں آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ ٹیسٹ کے فائنل میں پہنچے۔
گیری کرسٹن نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ان کا مقصد پاکستان کی وائٹ بال ٹیم کی صلاحیتوں کو ایک مشترکہ مقصد کے لیے بروئے کار لانا اور میدان میں مل کر کامیابی حاصل کرنا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے کوچز گیری کرسٹن اور جیسن گلیسپی کون ہیں؟
سب سے پہلے بات سابق آسٹریلوی فاسٹ بالر جیسن گلیسپی کی جنہوں نے 1996 اور 2006 کے دوران 71 ٹیسٹ، 97 ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔
ان کی انٹرنیشنل وکٹوں کی تعداد 402 ہے اور وہ 2003 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی آسٹریلوی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ ان کا پہلا اسائنمنٹ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اگست میں ہونے والی ہوم سیریز ہو گی جس کے بعد وہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف اوے سیریز میں ٹیم کی رہنمائی کریں گے۔
وہ نہ صرف انگلش کرکٹ بورڈ سے منظور شدہ لیول 4 کوچ ہیں بلکہ اس سے قبل 2010 سے 2012 تک زمبابوے کی اور 2017 میں پاپوا نیو گنی کی کوچنگ بھی کر چکے ہیں۔
ان ہی کی کوچنگ میں جہاں یارکشائر کاؤنٹی نے کامیابیاں سمیٹیں وہیں اس ٹیم کی نمائندگی کرنے والے جونی بیرسٹو اور جو روٹ کو اس وقت انگلش کرکٹ ٹیم کا اہم رکن تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی وائٹ بال ٹیم کی کوچنگ کرنے والے گیری کرسٹن کا پہلا اسائنمنٹ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف مئی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ ہوں گے جس سے انہیں جون میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل کھلاڑیوں کو جانچنے کا موقع ملے گا۔
سن 2008 سے 2011 کے درمیان وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ بطور کوچ اور 2011 سے 2013 تک جنوبی افریقہ کے ساتھ بطور کوچ منسلک رہے۔
اس دوران انہوں نے نہ صرف بھارت کو ورلڈ کپ کا چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا، بلکہ ان کی کوچنگ میں بھارت اور جنوبی افریقہ دونوں ہی نے آئی سی سی کی ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
بطور کھلاڑی گیری کرسٹن نے 1993 سے لے کر 2004 کے درمیان جنوبی افریقہ کی 101 ٹیسٹ اور 185 ون ڈے انٹرنیشنل میں نمائندگی کی۔ ان کا شمار اپنے زمانے کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا تھا جس کا ثبوت ان کی مجموعی طور پر 34 سنچریاں اور 14 ہزار سے زائد انٹرنیشنل رنز ہیں۔
انہوں نے تین ورلڈ کپ مقابلوں میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کی۔ 1996 کے ورلڈ کپ کے دوران انہوں نے نہ صرف متحدہ عرب امارات کے خلاف 188 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی بلکہ صرف ایک رنز کی کمی سے ایک اننگز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ اپنے نام کرنے سے قاصر رہے تھے۔
وہ 1998 میں کھیلی جانے والی پہلی آئی سی سی ناک آؤٹ ٹرافی (موجودہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی) جیتنے والی جنوبی افریقی ٹیم کے رکن بھی تھے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم میں غیر ملکی کوچز کا سفر
سن 1952 سے لے کر 1999 تک پاکستان کرکٹ ٹیم نے زیادہ تر ان سینیئر کھلاڑیوں کو کوچنگ اور مینجمنٹ کے لیے موزوں سمجھا جو پاکستان کی انٹرنیشنل لیول پر نمائندگی کرچکے تھے۔ ان ناموں میں سر فہرست انتخاب عالم کا نام آتا ہے جو اسی اور نوے کی دہائی میں گرین شرٹس کے ساتھ پہلے بطور مینیجر اور بعد میں بحیثیت کوچ جڑے رہے۔
البتہ جب 1999 میں انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ سے قبل اچانک جاوید میاں داد کو کوچنگ سے سبک دوش کیا گیا تو برطانوی کوچ رچرڈ پائی بس کو ہیڈ کوچ مشتاق محمد کا اسسٹنٹ مقرر کیا گیا جنہوں نے بعد میں 2001 سے 2003 کے درمیان دو الگ الگ مواقع پر پاکستان ٹیم کی کوچنگ کی۔
لیکن جب جنوبی افریقہ کے سابق کوچ باب وولمر پاکستان ٹیم کے ساتھ جڑے تو نہ صرف کھلاڑیوں کی اپنی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ ان کی کوچنگ کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانے لگا۔
باب وولمر کی 2007 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران اچانک موت نے پاکستان ٹیم کو ایک بار پھر مشکلات میں ڈال دیا جس سے نکالنے کے لیے آسٹریلیا کے جیف لاسن میدان میں آئے۔
سابق فاسٹ بالر کی کوچنگ میں گرین شرٹس نے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا لیکن ان کے جانے کے بعد مقامی کوچز نے پاکستانی کھلاڑیوں کی رہنمائی کی۔
سری لنکا کو 1996 کا ورلڈ کپ جتوانے والے ڈیو واٹمور کی سن 2012 میں آمد سے مداحوں کو بہت امیدیں تھیں۔ ان کے آتے ہی پاکستان نے ایشیا کپ کا ٹائٹل بھی جیتا۔ لیکن اس کے بعد ٹیم کی کارکردگی خراب ہوتے ہی انہیں فارغ کردیا گیا۔
سن 2016 سے 2019 کے درمیان جنوبی افریقہ کے سابق کوچ مکی آرتھر نے پاکستان کو آئی سی سی چیمپینز ٹرافی کا چیمپئن بھی بنوایا اور گرین شرٹس کو آئی سی سی کی ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر پہنچایا۔
سن 2019 کے ورلڈ کپ میں ٹیم کے سیمی فائنل میں نہ پہنچنے پر انہیں بھی عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔ تاہم گزشتہ سال چند ماہ کے لیے انہوں نے بطور ٹیم ڈائریکٹر پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ کام کیا۔
بطور ٹیم ڈائریکٹر ان کے دورِ میں گرانٹ بریڈبرن پاکستان کے ہیڈ کوچ رہے۔ لیکن مکی آرتھر اور تمام کوچنگ اسٹاف کو ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد عہدے کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی فارغ کردیا گیا۔
ریڈ بال، وائٹ بال ٹیموں کے لیے الگ الگ کوچز پر مبصرین کیا کہتے ہیں؟
نئے کوچز کے اعلان کو جہاں کرکٹ مداح خوش آئند قرار دے رہے ہیں وہیں مبصرین بھی اسے ایک طرح سے اچھا فیصلہ قرار دے رہے۔ لیکن صرف اس صورت میں جب انہیں مدت پوری کرنے کا موقع ملے۔
اسپورٹس جرنلسٹ عبدالماجد بھٹی کے خیال میں گیری کرسٹن اور جیسن گلیسپی دونوں بڑے کوچز ہیں جن سے اگر فائدہ اٹھانا ہے تو انہیں بغیر کسی مداخلت کے کام کرنے دیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی کوچز کو وقت سے پہلے عہدے سے ہٹانے پر پاکستان کرکٹ بورڈ کو دنیا میں سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ البتہ اگر ان دونوں کوچز کو پورا وقت ملا تو اس سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہو گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں جتنے بھی غیر ملکی کوچ آئے۔ ان میں صرف مکی آرتھر اپنی میعاد پوری کر سکے۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی کو چاہیے کہ ایسی قانون سازی کریں کہ بورڈ چیئرمین تبدیل ہونے کے بعد بھی ان کے فیصلے برقرار رہیں۔
اُن کے بقول 'دنیا کے کسی کوچ کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ رگڑے اور ٹیم دنیا کی بہتری ٹیم بن جائے، اگر پیسوں سے بڑے کوچز لا کر کامیابی حاصل کی جاتی تو برونائی اور عرب ممالک کی ٹیمیں تمام اسپورٹس میں آگے ہوتیں۔'
سینئر اسپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی نے اس پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بھی دیکھی تھی جس کی باگ دوڑ باب وولمر کے ہاتھ میں تھی اور جس کی کوچنگ بعد میں مکی آرتھر نے کی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب جب غیر ملکی کوچ آئے ہیں، ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔
ان کے بقول غیر ملکی کوچز ایک وژن کے ساتھ آتے ہیں، مقامی کوچز کے مقابلے میں لڑکے ان سے مرعوب بھی ہوتے ہیں۔
شاہد ہاشمی سمجھتے ہیں کہ اظہر محمود کو دونوں کوچز کے ساتھ اسسٹنٹ کوچ رکھنا بھی ایک اچھا قدم ہے جس کی وجہ سے بطور کوچ انہیں سابق آل راؤنڈر کا مستقبل اچھا نظر آ رہا ہے۔
شاہد ہاشمی کے بقول ایک آدھ ناکامی پر ان دونوں کوچز کو فارغ نہیں کیا جانا چاہیے، جیسا کہ ماضی میں کیا کیوں کہ ان دونوں کا انٹرنیشنل لیول پر بڑا نام ہے۔
انہوں نے خاص طور پر گیری کرسٹن کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ان سے فوراً اچھے نتائج کی توقع درست نہیں۔ انہیں وقت دیں تاکہ وہ کھلاڑیوں کو بھی سکھائیں اور اپنے ساتھ لگے ہوئے مقامی کوچز کو بھی۔
فورم