رسائی کے لنکس

پنجاب ہتکِ عزت بل پر صحافیوں کا احتجاج؛ 'یہ آزاد آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • پنجاب ہتکِ عزت بل کی منظوری پر صحافی سراپا احتجاج ہیں۔
  • صحافتی تنظیمیں بل کو صحافیوں کی آواز دبانے اور اظہار رائے پر قدغنیں لگانے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔
  • حکومت نے بل کو عام کیا اور نہ ہی متعلقہ تنظیموں سے مشاورت کی اور رات کے اندھیرے میں بل اسمبلی سے منظور کرا لیا: افضل بٹ
  • صحافتی تنظیمیں ملک بھر میں متنازع بل کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گی: اظہر عباس

اسلام آباد -- پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 'فیک نیوز' کے تدارک کے لیے اسمبلی سے منظور کرائے گئے 'ہتکِ عزت بل' پر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا احتجاج جاری ہے۔ حکومت سے بل کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

پیر کو مذکورہ بل کثرتِ رائے سے پنجاب اسمبلی سے منظوری کے بعد دستخط کے لیے گورنر پنجاب کو بھجوا دیا گیا تھا۔ تاہم صحافتی تنظیمیں بل کو صحافیوں کی آواز دبانے اور اظہار رائے پر قدغنیں لگانے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔

ہتکِ عزت بل کے تحت کسی بھی شخص کو سرکاری اہل کاروں اور عام شہریوں کے خلاف الیکٹرانک، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں گمراہ کن دعوؤں پر سزا دی جا سکے گی جب کہ 30 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔

پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ اس قانون کا مقصد 'فیک نیوز' کے پھیلاؤ کو روکنا ہے اور اِس بل سے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف منفی پراپیگنڈے کو روکا جا سکے گا۔ تاہم حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔

صحافیوں کو بل پر کیا اعتراض ہے؟

ایسوسی ایشن آف ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمینڈ) کے صدر اظہر عباس کہتے ہیں کہ پنجاب ہتکِ عزت بل 2024 اپنی موجودہ شکل میں آزاد آوازوں کو خاموش کرنے اور آزادیٔ اظہار کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے بل پر اختلافِ رائے کو بلڈوز کر دیا جس سے حکومت کے مذموم ارادوں کا پتا چلتا ہے۔

اظہر عباس کا کہنا تھا کہ وفاق کی سطح پر ہتکِ عزت قانون کی موجودگی میں ایسے بل کی منظوری پر سوال اُٹھتا ہے جب کہ اس میں خوفناک شقیں شامل کی گئی ہیں۔

'پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے پر یہ طریقہ ٹھیک نہیں'

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے۔ لیکن قانون سازی کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا، صحافیوں کو اس پر اعتراض ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افضل بٹ کا کہنا تھا کہ حکومت نے بل کو عام کیا اور نہ ہی متعلقہ تنظیموں سے مشاورت کی اور رات کے اندھیرے میں بل اسمبلی سے منظور کرا لیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے ایجنڈٖے پر ہتک عزت بل آنے پر صحافتی تنظیموں نے حکومت سے بات کی اور یہ طے پایا کہ حکومت بل کے حوالے سے صحافیوں کی تجاویز اور اعتراضات کو دور کرے گی تاہم اس کے باوجود بل کو منظوری کے لیے پیش کر دیا گیا۔

صحافتی تنظیموں کا تحریک چلانے کا اعلان

صحافتی تنظیمیوں نے اس بل کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی مشاورت کا اعلان کیا ہے۔

اظہر عباس کہتے ہیں کہ صحافتی تنظیمیں ملک بھر میں متنازع بل کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گی جب کہ اسے عدالت میں چیلنج بھی کیا جائے گا۔

افضل بٹ نے کہا کہ اس طرزِ عمل سے یہ شک ہوتا ہے کہ حکومت پہلے سے اپنے اہداف طے کیے ہوئے ہے جنہیں حاصل کرنے کے لیے اس نے جلد بازی میں یہ قانون منطور کروایا ہے۔

'ایکس' کی بندش: 'لگتا ہے صاحبِ اقتدار اس سے پریشان ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:20 0:00

بل کی شقیں

بل کے مطابق ایکٹ کا مطلب پنجاب ہتک عزت ایکٹ 2024 ہے۔ بل کے تحت صحافی سے مراد کوئی بھی شخص ہے جو پیشہ ورانہ طور پر یا باقاعدگی سے کسی اخبار، میگزین، نیوز ویب سائٹ یا دیگر نیوز براڈکاسٹ میڈیم (چاہے آن لائن ہو یا آف لائن) سے منسلک ہو۔

بل کے مطابق ہتکِ عزت کا مطلب کسی ایسے جھوٹے یا غیر حقیقی بیان یا نمائندگی کی زبانی یا تحریری یا بصری شکل میں عام شکل یا اظہار کے ذریعے یا الیکٹرانک و دیگر جدید میڈیم میں نشر کرنا ہے جس سے کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

شکایت کہاں درج ہو گی؟

اس بل کے تحت صوبہ پنجاب میں ٹربیونل قائم کیا جائے گا۔ ٹریبونل سربراہ کے اختیارات لاہور ہائی کورٹ کے جج کے برابر ہوں گے۔ ٹربیونل کو پنجاب ڈیفیمیشن ٹربیونل کا نام دیا جائے گا۔

ٹربیونل کے سامنے اگر کسی شخص کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اُسے 30 لاکھ روپے اس شخص کو دینا ہوں گے جس کے خلاف اس نے الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر الزامات لگائے تھے۔

شکایت کون درج کرا سکتا ہے؟

پنجاب ڈی فیمیشن ایکٹ کے تحت تمام آئینی اداروں کے سربراہ، حکومتی افراد اور عام شہری اِس ایکٹ کے تحت اپنی شکایت درج کرا سکیں گے۔ اگر کوئی شخص الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا پر کسی کو بدنام کرتا ہے یا الزامات لگاتا ہے تو متاثرہ شخص اپنی شکایت ٹریبونل میں درج کراسکے گا۔

حکومتی مؤقف

صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق ہتکِ عزت بل میں خصوصی ٹریبوبل بنایا جا رہا ہے جو چھ ماہ میں ہتک عزت کے دعوے کا فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا۔

پنجاب اسمبلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اِس بل کا مقصد جھوٹ کو پکڑنا اور منفی پراپیگنڈا کو پھیلانے سے روکنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس قانون سے میڈیا پر پابندی کا تاثر غلط ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہتکِ عزت بل کے تحت پہلی شکایت وہ خود درج کرائیں گی کیوں کہ اُن کے والد اور بہنوں پر الزامات لگائے گئے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG