|
روس کے ایک سینیئر سفارت کار نے کہا ہے کہ روس کی وزارت خارجہ اور انصاف نے صدر ولادی میر پوٹن کو بتایا ہے کہ افغانستان کے حکمران طالبان کو نامزد دہشت گرد تنظیموں سے متعلق ماسکو کی فہرست سے نکالا جا سکتا ہے۔
افغانستان کے لیے روس کے خصوصی صدارتی ایلچی ضمیر کبولوف نے پیر کو سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کو بتایا کہ فہرست سے ہٹانے سے ماسکو یہ فیصلہ کر سکے گا کہ آیا طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔
ضمیر کبولوف سے یہ بیان منسوب کیا گیا کہ "اس کے بغیر [طالبان پر سے پابندی ہٹائےبغیر]، تسلیم کرنے کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔ لہذا، اس مسئلے پر کام ہو رہا ہے۔ روس کی اعلیٰ قیادت کو تمام تحفظات کی رپورٹ دے دی گئی ہے۔ ہم کسی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔"
خبر رساں ایجنسی تاس نے پیر کو ایک الگ رپورٹ میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے حوالے سے کہا کہ طالبان افغانستان میں "حقیقی طاقت" ہیں اور کالعدم تنظیموں سے متعلق ماسکو کی فہرست سے گروپ کا ممکنہ اخراج "معروضی حقیقت" کی عکاسی کرتا ہے۔"
روس نے طالبان کو 2003 میں باضابطہ طور پر اس وقت دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، جب یہ انتہا پسند گروپ افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف مہلک شورش میں مصروف تھا۔
شورش پسندوں نے 15 اگست 2021 کو، افغانستان سے امریکی قیادت کی غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد اقتدار پر دوبارہ قبضہ کیا اور وہاں طالبان کی حکومت قائم کی جو صرف مردوں پر مشتمل تھی۔
کسی بھی بیرونی ملک نے طالبان کو، باضابطہ طور پر جائز حکمران تسلیم نہیں کیا ہے، خاص طور پر انسانی حقوق اور دہشت گردی سے منسلک خدشات کے باعث۔
تاہم، روس سمیت کئی پڑوسی اور علاقائی ملکوں نے طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں اپنے سفارت خانے برقرار رکھے ہیں اور ڈی فیکٹو حکومت کو اپنے ملکوں میں سفارت خانے چلانے کی اجازت دے دی ہے۔
کبولوف نے پیر کے روز کہا کہ طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے "تسلیم کیے جانے کے راستے پر ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ لیکن ابھی بھی کچھ رکاوٹیں ہیں جن کو ابھی دور کرنا ہے، جس کے بعد روسی قیادت کوئی فیصلہ کرے گی۔" انہوں نے مزید کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
پیر کو روسی سفارت کار سے یہ بیان بھی منسوب کیا گیا کہ ان کی حکومت نے طالبان کو پانچ سے آٹھ جون تک سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
یہ تقریب، جس میں کبھی لندن اور نیویارک کے اعلیٰ مغربی کاروباری رہنماؤں اور سرمایہ کار بینکرز کی میزبانی کی جاتی تھی، فروری 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے نمایاں طور پر تبدیل ہو گئی ہے۔
ماسکو اور عالمی برادری بڑے پیمانے پر طالبان پر زور دے رہی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے اس جنگ زدہ ملک پر سیاسی طور پر ایک جامع حکومت کے ذریعے حکمرانی کرے اور افغان خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر پابندی ختم کرے۔
شدت پسند ڈی فیکٹو حکمران اپنے طرز حکمرانی پر تنقید کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی پالیسیاں مقامی ثقافت اور اسلامی قانون کے مطابق ہیں۔
روس طالبان کے ساتھ کئی برسوں سے تعلقات استوار کر رہا ہے اور وہ مبینہ طور پر انہیں اس وقت ہتھیار فراہم کرتا رہا ہے جب وہ امریکی قیادت میں غیر ملکی فوجیوں اور ان کے افغان اتحادیوں پر شورش پسند حملے کر رہے تھے۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ کابل اور ماسکو کے درمیان گزشتہ چند سالوں میں تجارتی تعلقات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)
فورم