|
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر کریش میں موت کو 10 سے زیادہ دن ہوچکے ہیں۔ لیکن حکام اب تک ایسے کتنے ہی اہم سوالوں کے جواب نہیں دے پائے ہیں کہ گہری دھند میں اڑنے والے تین ہیلی کاپٹرز میں سے ایک ہی کیوں کریش ہوا؟
اسی طرح اب تک اس سوال کا جواب بھی نہیں مل سکا ہے کہ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر کا ایک مسافر کسی امدادی ٹیموں کے جائے حادثہ پر پہنچنے سے قبل کئی گھنٹوں تک موبائل فون پر کالوں کا جواب دیتا رہا اور بعد ازاں اس کی موت واقع ہوگئی۔
اس مسافر کی شناخت محمد علی آلِ ہاشم کے نام سے ہوئی جو ایرانی صوبے مشرقی آذر بائیجان کے لیے ایران کے رہبرِ اعلیٰ کے نمائندے تھے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر 19 مئی کو اس وقت حادثے کا شکار ہوا تھا جب وہ آذر بائیجان سے ملحق سرحدی علاقے سے ایک ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کا معائنہ کرکے واپس آرہے تھے۔
صدر رئیسی کے ساتھ وزیرِ خارجہ اور حکام کے علاوہ عملے سمیت آٹھ افراد سوار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی حادثے میں محفوظ نہیں رہ سکا ہے۔ حادثے میں صدر رئیسی اور دیگر افراد کی ہلاکت کی تصدیق 20 مئی کو ہوئی تھی۔
ایرانی حکومت کا اصرار ہے کہ اسے تاحال ہیلی کاپٹر تباہ ہونے کے واقعے میں کسی سازش کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
کچھ روز قبل سرکاری ٹی وی پر بار بار یہ رپورٹ چلائی گئی ہے جس کے مطابق رئیسی جس ہیلی کاپٹر میں سوار تھے اس کے پائلٹ نے دیگر پائلٹس کو بادلوں سے نکلنے کے لیے بلندی بڑھانے کی ہدایات دی تھیں۔
بظاہر اس رابطے کے 30 سیکنڈز کے بعد ان کا رابطہ دیگر پائلٹس سے منقطع ہوگیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ان دیگر ہیلی کاپٹرز نے 20 منٹ بعد سنگن کے علاقے میں تانبے کی کان کے پاس مقامی وقت کے مطابق دن دو بجے ایمرجینسی لینڈنگ کی تھی۔
نیٹ ورک ون ٹی وی کی حالیہ رپورٹ میں ایک بہت ضروری تفصیل یہ سامنے آئی ہے کہ دیگر دو ہیلی کاپٹرز میں سے ایک میں سوار ایران کے وزیرِ توانائی علی اکبر مہربانیان نے رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آنے کے چند گھنٹوں بعد آلِ ہاشم سے فون پر بات کی تھی۔
اس رپورٹ میں ایک ویڈیو کلپ بھی دکھایا گیا ہے جس میں وزیر ،رہبرِ اعلیٰ کے صوبائی نمائندے سے ان کی خیریت دریافت کر رہے ہیں۔
اس سے قبل دوسرے ہیلی کاپٹر میں سوار رئیسی کے چیف آف اسٹاف غلام حسین اسماعیلی نے بھی 22 مئی کو سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ لینڈنگ سے تھوڑی دیر بعد ان کی بھی آلِ ہاشم سے فون پر بات ہوئی تھی اور انہیں معلوم ہوا تھا کہ وہ زخمی ہیں۔
صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کریش کے بارے میں وائس آف امریکہ کے مائیکل لپن نے تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی میں ایران کے سیکیورٹی امور کے ماہر فیضان ندیمی سے بات کی ہے۔
اس گفتگو میں فیضان ندیمی نے کئی اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر بادلوں سے بلند کیوں نہیں ہوسکا؟
فیضان ندیمی کے مطابق صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر سمیت تین ہیلی کاپٹر واپسی کا سفر کر رہے تھے۔ ان میں سب سے آگے جو ہیلی کاپٹر تھا وہ کینیڈین ساختہ بیل 212 تھا۔ بیچ میں وی آئی پی کاپٹر بھی بیل 212 تھا جب کہ صدر کے ہیلی کاپٹر کے عقب میں ایک ایم آئی ایل ایم آئی 171 روسی ساختہ ہیلی کاپٹر تھا۔
سب سے آگے والے ہیلی کاپٹر میں موسمی رڈار نصب تھا۔ درمیانی ہیلی کاپٹر جس میں صدر سوار تھے اس میں یہ رڈار نہیں تھا لیکن بظاہر اس کا پائلٹ ہی اس بیڑے کو کمانڈ کر رہا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد نہیں ملے ہیں کہ موسمی رڈار سے لیس سب سے آگے والا ہیلی کاپٹر جو عام طور پر خراب موسمی حالات میں راستہ تلاش کرنے کی ذمے داری بھی ادا کرتا ہے وہ دیگر ہیلی کاپٹرز سے بھی رابطے میں تھا۔ ہمیں اس کمیونی کیشن تک رسائی بھی حاصل نہیں ہے۔
ان کے مطابق سب سے آگے والے ہیلی کاپٹر کو دیگر پائلٹس کو بھی خراب موسمی حالات سے خبردار کرنا چاہیے تھا۔
فیضان ندیمی کہتے ہیں کہ درمیان میں موجود ہیلی کاپٹر کیوں بلندی میں اضافہ نہیں کرسکا؟ اس بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں۔ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔
ہیلی کاپٹر کریش کے بعد آلِ ہاشم کیسے فون پر رابطہ کرتے رہے؟
فیضان ندیمی کہتے ہیں کہ اس بارے میں تفصیلات غیر معمولی محسوس ہوتی ہیں۔ بظاہر رئیسی کا ہیلی کاپٹر اچانک کریش ہوا اور اس وقت پائلٹ کا ہیلی کاپٹر پر کنٹرول تھا۔
ان کے مطابق اس وقت کوئی شواہد دستیاب نہیں لیکن پائلٹ یا تو غلطی سے یا کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے زمین سے جا ٹکرایا۔
ان کے بقول زمین پر کریش کے بعد ہونے والے امپیکٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کافی بلندی پر تھا اور بہت قوت سے زمین پر گرا ہے۔ ممکن ہے کہ شدید جھٹکے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر میں سوار افراد میں سے کوئی باہر جا گرا ہو اور کسی وجہ سے معجزاتی طور پر بچ بھی گیا ہو اور شدید زخمی ہونے کے باوجود اسے پائلٹ کے موبائل فون تک رسائی مل گئی ہو۔
وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ بات بہت عجیب معلوم ہوتی ہے کیوں کہ ہیلی کاپٹر کے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے شدید ترین دھچکا پائلٹ اور کو پائلٹ کو لگنا چاہیے۔
لیکن ان کے بقول کسی وجہ سے ممکن ہے کہ ان کے موبائل فونز سلامت رہے ہوں اور ان کے قریبی شخص کو اس تک رسائی مل گئی ہو۔
فیضان ندیمی کے مطابق یہ سب امکان ہے لیکن اگر ایسا ہوا بھی ہو تو یہ بہت تعجب خیز ہے۔
فورم