رسائی کے لنکس

یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی نے نئے سوال کھڑے کر دیے


دائیں بازو کی پارٹی الائنس فار دی یونیفیکیشن آف رومانین (AUR) کے حامی جھنڈے لہراتے ہوئے ایک بڑے پوسٹر کے اوپر کھڑے ہیں جس میں قرون وسطی کےحکمرانوں کو دکھایا گیا ہے۔ (اے پی فوٹو)
دائیں بازو کی پارٹی الائنس فار دی یونیفیکیشن آف رومانین (AUR) کے حامی جھنڈے لہراتے ہوئے ایک بڑے پوسٹر کے اوپر کھڑے ہیں جس میں قرون وسطی کےحکمرانوں کو دکھایا گیا ہے۔ (اے پی فوٹو)
  • یورپی پارلمنٹ میں دائیں بازو کی پارٹیوں کی کامیابی نے یونین کی مستقبل کی سمت کے تعین بارے میں غیر یقینی صرت حال پید کر دی۔
  • فرانسیسی صدر نے فوری انتخابات کروانےکا فیصلہ کر لیا۔
  • سینٹر رائٹ یورپین پیپلز پارٹی یا ای پی پی نئی مقننہ میں اب بھی سب سے بڑا گروپ ہو گا۔
  • یورپی پارلمنٹ میں دائیں بازو کی جانب منتقلی کا یہ رجحان نئی قانون سازی کو مشکل بنا سکتا ہے۔

اتوار کے روز ہونے والے یورپی پارلمنٹ کے انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں نے کامیابی حاصل کی ہے، جس سے اس بارے میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ یورپی یونین کے مستقبل کی سیاسی سمت کیا ہو گی۔

ایگزٹ پولز کے مطابق اعتدال پسند، لبرل اور سوشلسٹ پارٹیاں 720 رکنی یورپی پارلمنٹ میں اپنی اکثریت برقرار رکھ سکیں گی لیکن لگ بھگ 28 نشستیں کھو بیٹھیں گی۔

فرانسیسی صدر میکرون کو مارین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت سے شکست ہوئی ہے۔

میکرون نے کہا کہ یورپی پارلمنٹ کا یہ نتیجہ ان کی حکومت کے لیے ڈراؤنا تھا اوروہ اس سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ اسی کے باعث انہوں نے فوری طور پر قومی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔

اگر لی پین کی نیشنل ریلی پارٹی پارلیمانی اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو پھر میکرون کا ملک کے داخلی معاملات پر بہت کم اثر و رسوخ باقی رہ جائے گا۔

جرمن چانسلر اولاف شولز کو بھی ایک صبر آزما رات گزارنی پڑی۔

ان کے سوشل ڈیموکریٹس اب تک کے اپنے بدترین انتخابی نتائج حاصل کر سکے اور انہیں مرکزی دھارے کے قدامت پسندوں اور جرمنی کے لیے سخت موقف کے حامل دائیں بازو کے متبادل کے مقابلے میں نقصان اٹھانا پڑا۔

دریں اثناء ایگزٹ پولز کے مطابق اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی کی پوزیشن مضبوط ہوئی۔ اور ان کا انتہائی قدامت پسند گروپ برادرز آف اٹلی گروپ سر فہرست رہا۔

اتوار کے روز انتہائی دائیں بازو کی کامیابیوں کے باوجود ایک مرکزی ایگزٹ پول کے مطابق سینٹر رائٹ یورپین پیپلز پارٹی یا ای پی پی نئی مقننہ میں اب بھی سب سے بڑا گروپ ہو گا اور وہ پانچ نشستیں جیتے گا اور اس کے ارکان کی تعداد 189 ہو جائے گی۔

یہ ای پی پی کی رکن ارسولا وان ڈیر لیین کے لیے اچھی خبر ہے۔ کیونکہ وہ طاقتور ای یو ایگزیکٹو بازو کی دوسری پانچ سالہ مدت کی سربراہی کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔

جیسے ہی نتائج سامنے آئے، وان ڈیر لیین نے فوری طور پر خود کو انتہا پسندی کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر پیش کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ اعتدال پسندی برقرار ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بائیں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اور یہ ہی سبب ہے کہ اس نتیجے نے اعتدال پسند پارٹیوں پر بھاری ذمہ داری عائد کردی ہے۔

تجزیہ کار پورے یورپ میں قوم پرست جماعتوں کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کی وجہ بڑھتی ہوئی قیمتوں پر مایوسی، نقل وطن پر تشویش، ایک ایسی معیشت کی جانب پیش رفت کی بھاری قیمت جس کا انحصار معدنی ایندھن پر نہ ہو اور یوکرین کی جنگ بتاتے ہیں۔

قدامت پسند اب اپنی کامیابیوں کو یورپی یونین کی پالیسی پر اثر انداز کرنے کی کوشش کریں گے۔

یورپی پارلمنٹ میں دائیں بازو کی جانب منتقلی کا یہ رجحان اس نئی قانون سازی کو مشکل بنا سکتا ہے جس کی سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے، موسمیاتی تبدیلیوں یا چین اور امریکہ کے درمیان صنعتی مسابقت کا جواب دینے کے لیے ضرورت پڑ سکتی ہے۔

اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG