|
سرینگر_سن 2019 میں بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان کے کسی سرکاری وفد کی نئی دہلی کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر آمد کو مبصرین اہم قرار دے رہے ہیں۔
اگرچہ یہ دورہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری پن بجلی کے منصوبوں سے متعلق ہے جن پر پاکستان اعتراض عائد کرتا ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان سر مہری کے شکار سفارتی تعلقات کے تناظر میں اسے اہمیت دی جا رہی ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پن بجلی کے کم از کم 10 ایسے منصوبے زیرِتعمیر ہیں جن پر پاکستان اعتراضات اٹھا چکا ہے۔
پاکستان کا مؤقف کے کہ ان مںصوبوں میں دریائے سندھ اور دیگر دریاوٴں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔
پاکستان کی شکایت سے متعلق زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے عالمی بینک کے مقرر کردہ غیر جانب دار ماہرین رواں ہفتے جموں و کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں، بھارت اور پاکستان کے سرکاری وفود بھی ان ماہرین کے ہمراہ ہیں۔
اس 15 روزہ دورے میں عالمی ماہرین اور دونوں ملکوں کے سرکاری وفود مل کر علاقے میں متنازع پراجیکٹس پر جاری کام کا جائزہ لیں گے۔ اس کے بعد باہمی ملاقاتوں میں پاکستان کے تحفظات پر بھی تفصیلی بات چیت ہو گی۔
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ منصوبوں کی وجہ سے وہ مستقبل میں اپنے حصے کے پانی سے محروم ہو جائے گا۔
بھارت پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ زیرِ تعمیر پن بجلی منصوبوں سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں جن آبی منصوبوں پر کام جاری ہے وہ دراصل پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ سبھی ’رن آف دی ریور‘ یابہتے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ہیں جو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں۔
عالمی بینک کی ثالثی کے نتیجے میں 19ستمبر 1960 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹرٹریٹی) کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا تھا۔
معاہدے کے مطابق ان دریاؤں کے 80 فی صد پانی پر پاکستان کا حق ہے جب کہ مشرقی دریاؤں؛ راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کو دیا گیا تھا۔
سندھ طاس معاہدے پر اُس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے کراچی میں دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت بھارت سندھ، جہلم اور چناب کے بہتے پانیوں سے بجلی پیدا تو کرسکتا ہے لیکن اسے ان دریاؤں کا پانی ذخیرہ کرنے یا ان کا بہاؤ کم کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا ہے۔
اسی طرح راوی، بیاس اور ستلج پر بھارت کو پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔
عالمی بینک دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر ایک طویل مدت تک کی جانے والی کوششوں کے بعد دستخط کروانے میں کامیاب ہوا تھا اور وہی اس معاہدے کا ضامن ہے۔
سرینگر میں صوبائی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ عالمی بینک کے غیر جانب دار ماہرین اور دونوں ملکوں کے سرکاری وفود کو 17سے 28 جون تک جاری رہنے والے دورے میں معاونت کے لیے 25 رابطہ افسران مقرر کیے گئے ہیں۔
عالمی بینک کی طرف سے غیر جانب دار ماہرین کا تقرر ایک معمول رہا ہے۔ ان ماہرین کی ذمے داریوں میں پانی پر بننے والے منصوبوں کا معائنہ کرنا، بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لینا اور دریاؤں کے پانی کے استعمال کا جائزہ لینا شامل ہے۔
ماہرین اپنی رپورٹ عالمی بینک کو پیش کرتے ہیں اور پھر عالمی بینک طرفین کے درمیان ثالثی کرنے کے لیے قائم عدالت کے چیئر پرسن کا نام طے کرتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کا متواتر جائزہ لینے اور اس سلسلے میں فریقین کی طرف سے وقتاً فوقتاً اٹھائے جانے والے اعتراضات اور تحفظات پر غور کے لیے ہر چھ ماہ بعد اسلام آباد اور نئی دہلی میں باری باری اجلاس منعقد کیے جاتے رہے ہیں۔
لیکن پہلے کووڈ وباء کی وجہ سے اور پھر پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کے کشمیر سے متعلق متنازع اقدام کی وجہ سے یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
بھارت نے گست 2019 میں جموں و کشمیر کی نیم آئینی خود مختاری منسوخ کر دی تھی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں میں تبدیل کر دیا تھا۔
تاہم بھارت کے اس اقدام کے بعد مئی 2022 میں نئی دہلی میں پاک بھارت مستقل انڈس کمیشن کا اجلاس ہوا تھا جس میں پاکستان کے چھ رکنی وفد کی قیادت سید مہر علی شاہ نے کی تھی۔ بھارتی وفد کی قیادت انڈین انڈس واٹر کمیشن اے کے پال نے کی تھی۔
مئی 2014 میں حکومت سنبھالنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ بھارت کے مفادات کے منافی ہے۔
انہوں نے کئی بار یہ عندیہ دیا کہ بھارت اس معاہدے کو منسوخ کر دے گا۔
کچھ عرصہ پہلے بھارت نے اس معاہدے کی شرائط میں بڑی تبدیلیوں کا باضابطہ مطالبہ کیا تو پاکستان نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا تھا کہ بھارت اس معاہدے میں یک طرفہ تبدیلیاں کرنا چاہتا ہے جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
جہاں تک بھارت کی طرف سے معاہدے کی مبینہ خلاف ورزیوں کا تعلق ہے پاکستان نے اس سلسلے میں دی ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کورٹ آف آربیٹریشن یا بین الاقوامی عدالتِ ثالثی میں بھی شکایت درج کرائی تھی لیکن بھارت نے اس پر ہونے والی سماعت کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
پاکستان نے عالمی بینک سے اس سلسلے میں غیر جانب دار مبصّرین مقرر کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔
بھارت نے اس سلسلے میں ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی تنازع کی صورت میں مرحلہ وار مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہو گا اور کسی تیسرے ملک یا ثالث کی مداخلت اسے ہرگز قبول نہیں ہے۔
لیکن اب بھارت نے عالمی بینک کے غیر جانب دار ماہرین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سرکاری وفد کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی ہے جس سے نئی دہلی کے سخت موقف میں لچک ظاہر ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ یہ پانچ اگست 2019 کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پہلی بڑی سفارتی مصروفیت ہے۔
نئی دہلی اور سری نگر میں سرکاری ذرائع نے بتایا کہ بھارت حل طلب مسائل کو باہمی تعاون اور مکالمے کے ذریعے حل کرنے کا خواہش مند ہیں۔
پاکستان کو لداخ سمیت جموں و کشمیر پن بجلی کے کم ازکم 10 منصوبوں کی تعمیر پر تحفظات ہیں۔ مارچ 2022 میں دونوں ملکوں کے مستقل انڈس کمیشن کا سالانہ اجلاس ہوا تو پاکستان نے ان منصوبوں پر باضابط اعتراض کیا تھا۔
ماضی میں بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں چناب اور جہلم پر بننے والے بعض پن بجلی منصوبوں پر تنازعات کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بنتے رہے ہیں لیکن بعد میں انہیں متعلقہ حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاتا رہا ہے۔
جموں و کشمیر کی انتظامیہ کے سربراہ لیفٹننت گورنر منوج سنہا نے کچھ عرصہ پہلے ریاست میں مزید کئی پن بجلی گھر اور بند تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا جو سندھ، پنجاب اور جہلم اور ان میں بہنے والے مختلف ندی، نالوں اور چھوٹے دریاؤں پر بنائے جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سرد مہری عروج پر دکھائی دی بلکہ مختلف واقعات نے کشیدگی میں اضافہ ہی کیا۔
ان کے بقول اس لیے اگر دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں کی تقسیم پر اختلافات اور تنازعات کا مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا تو یہ مستقبل میں ایک خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔
فورم