رسائی کے لنکس

افغانستان میں داعش کے مبینہ گڑھ میں اہم کمانڈر کی ہلاکت کی اطلاعات


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • رپورٹس کے مطابق طالبان کی خصوصی فورسز نے پاکستان کی سرحد کے قریب کارروائی میں داعش کے کمانڈر کو نشانہ بنایا ہے۔
  • ہلاک ہونے والے داعش کمانڈر کو 'ابو شیر' کے نام سے جانا جاتا تھا۔
  • ابو شیر خود کو داعش کے ضلع اچین کا کمانڈر قرار دیتا تھا۔
  • داعش خراسان نے خطے میں کارروائیوں کے لیے اچین کو اپنا مرکز قرار دیا تھا۔
  • کابل میں برسرِ اقتدار طالبان نے داعش کے کمانڈر کی ہلاکت پر باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔

افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع مشرقی صوبے ننگرہار میں کارروائی کے دوران ایک اہم داعش کمانڈر کو ہلاک کر دیا ہے۔

طالبان سے منسلک ذرائع ابلاغ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی میں داعش کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا۔ اس خطے میں شدت پسند تنظیم خود کو 'داعش خراسان' کے نام سے پُکارتی ہے۔

'المرساد' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اتوار کو کی گئی کارروائی میں داعش کے کمانڈر ابو شیر کو نشانہ بنایا گیا۔ ابو شیر کا اصل نام ذاکر اللہ تھا۔

ذاکر اللہ خود کو داعش خراسان کا ننگرہار میں ضلع اچین کا کمانڈر قرار دیتا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی اسپیشل فورسز نے ضلع مہمند درا میں کارروائی کے دوران داعش کے کمانڈر کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

'المرساد' میں شائع ہونے والی رپورٹس کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ طالبان کی جانب سے بھی اس کارروائی کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

داعش نے 2015 میں ننگرہار میں اس خطے میں اپنی سرگرمیاں شروع کی تھیں۔ داعش خراسان نے اچین کو اپنا مرکز قرار دیا تھا۔

افغانستان میں طالبان اگست 2021 میں اس وقت برسرِ اقتدار آئے تھے جب امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے 20 سالہ جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنی فورسز کا انخلا مکمل کیا تھا۔ امریکی افواج خطے میں داعش خراسان کے خلاف تواتر سے کارروائیاں کرتی رہی تھی جس میں اس کے کئی اعلیٰ کمانڈرز مارے گئے تھے۔

 افغان طالبان کا ہمسایہ ملکوں پرداعش کی حمایت کا الزام
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:34 0:00

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد داعش نے افغانستان میں سیکیورٹی اہلکاروں اور اقلیتی اہلِ تشیع برادری پر خود کش حملے کیے ہیں۔

داعش کے حملوں میں سینکڑوں اموات ہوئی ہیں جن میں طالبان کے اہم رہنما اور متعدد مذہبی شخصیات شامل ہیں۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کی داعش خراسان کے خلاف مسلسل کارروائیوں سے اس کے افغانستان یا خطے میں کہیں اور خطرہ بننے کی صلاحیت برقرار نہیں رہی ہے۔

کابل میں قائم طالبان کی حکومت پاکستان اور ازبکستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ ان کی سرزمین پر داعش کے جنگجوؤں کی تربیت اور پرورش ہو رہی ہے۔

افغانستان کے دونوں پڑوسی ممالک نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے جوابی الزام عائد کیا ہے کہ کابل کے حکمران افغان سر زمین کو دہشت گرد گروہوں کے استعمال سے روکنے میں ناکام رہے جو پورے خطے کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔

امریکہ کے محکمۂ دفاع کی ایک سہہ ماہی رپورٹ رواں برس مئی میں سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ داعش خراسان خطے میں دوسرے مقامات پر ہلاکت خیز حملوں کی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔

اس رپورٹ میں افغانستان کے پڑوسی ملک ایران کے شہر کرمان میں جنوری میں ہونے والے خود کش حملے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ اس حملے میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈر سمیت 100 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

افغانستان میں غربت بڑھی تو وہاں دہشت گردی قدم جمائے گی
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:15 0:00

اس کے ساتھ ساتھ روس کے شہر ماسکو میں مارچ میں ہونے والے حملے کا بھی ذکر کیا گیا تھا جس میں مسلح افراد نے ایک کنسرٹ میں حملہ کر کے 140 افراد کو قتل کیا تھا۔ یہ روس میں دو دہائیوں کے دوران ہونے والا ہلاکت خیز حملہ تھا۔

مارچ میں امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے کانگریس کو افغانستان سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خدشات پر بتایا تھا کہ داعش سے منسلک گروہ اور افراد امریکہ اور یورپی ممالک پر حملوں کی صلاحیتوں کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔

جنوری میں ایک رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ داعش خراسان اپنے زیر قبضہ علاقوں سے محروم ہونے، جنگجوؤں کی اموات اور اعلیٰ قیادت کی ہلاکتوں کے باوجود افغانستان اور خطے کے لیے مستقل ایک بڑا خطرہ ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG