|
ویب ڈیسک _ وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے مذاکرات کے لیے امریکی حکام مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں موجود ہیں۔
جان کربی نے پیر کو بتایا کہ امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر ولیم برنز اور امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایلچی برٹ میکگرک مصر میں ہیں۔ ان کے بقول امریکی اعلیٰ عہدیدار مصر، اسرائیل اور اردن کے حکام سے مذاکرات کریں گے۔
جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ "ہم بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل اور حماس کے درمیان خلیج موجود ہے۔"
ان کے بقول امریکی حکام اس خلیج کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کی حکومت کے اقدامات سے ہو سکتا ہے کہ فریقین میں خلیج مزید بڑھ جائے۔ کیوں کہ اسرائیلی فوج نے پیر کو غزہ کے کئی علاقوں پر فضائی بمباری کی ہے جب کہ اس کے جنگی طیاروں نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوامِ متحدہ کے رابطہ دفتر نے پیر کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ اسرائیل کی فوج کی غزہ کے بیشتر علاقوں پر فضا، زمین اور بحری راستوں سے بمباری کی متواتر اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اس بمباری کے نتیجے میں مزید عام شہریوں کی اموات، فلسطینیوں کی نقل مکانی اور عام لوگوں کی املاک اور گھروں کی تباہی ہو رہی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائی کے دوران جھڑپوں کی بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
اسرائیل حملوں سے قبل ہزاروں افراد کو نقل مکانی کے احکامات جاری کرتا رہا ہے۔
امدادی امور کے دفتر او سی ایچ اے نے بیان میں کہا ہے کہ عدم تحفظ، تباہ حال راستے اور امنِ عامہ کی مخدوش صورتِ حال اسرائیل کے کریم شیلوم کراسنگ پوائنٹ سے غزہ میں خان یونس اور دیر البلاح تک امداد کی رسائی میں رکاوٹ ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی کمی کے سبب امدادی سرگرمیوں کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
غزہ کے مقامی شہریوں کا بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی ٹینک غزہ سٹی اور شمالی علاقوں میں آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی فورسز ان علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
اسرائیل اور حماس کا حالیہ تنازع گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب تک 38 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جنوبی غزہ میں کی جانے والی کارروائیوں میں 30 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔
اسرائیلی فورسز کی پیر کو کارروائیوں میں شدت ایسے وقت میں آئی ہے جب ایک دن قبل ہی غزہ جنگ کے نو ماہ مکمل ہونے پر اسرائیل میں مظاہرین نے کئی اہم شاہراہوں کو بلاک کر دیا تھا اور پارلیمان کے ارکان کے گھروں کے باہر احتجاج کیا تھا۔
اسرائیل میں ہونے والے ان مظاہروں میں وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے مستعفی ہونے، نئے انتخابات کا انعقاد، غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے مطالبات کیے گئے تھے۔
دوسری جانب اسرائیل اور حماس جنگ بندی سے متعلق معاہدے پر کسی حد تک قریب آ چکے ہیں۔ حماس نے غزہ میں مکمل جنگ بندی کا اپنا مطالبہ ترک کر دیا ہے۔ فریقین میں کئی ہفتوں سے امریکہ سمیت دیگر ثالثوں کی مدد سے مذاکرات جاری ہیں تاہم اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے کو قبول کرنے کے پانچ دن بعد اتوار کو حماس کے دو اعلیٰ عہدیداران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ وہ لڑائی کے خاتمے کے لیے اب اسرائیل کے جواب کے منتظر ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی معاہدے کا تین مراحل پر مشتمل معاہدہ مئی میں تجویز کیا تھا جس میں مصر اور قطر بھی ثالث ہیں۔
اس معاہدے کے تحت لڑائی بند ہوگی اور حماس کی تحویل میں موجود یرغمالوں کو رہا کیا جائے گا۔
گزشتہ برس نومبر کے آخر میں بھی عارضی جنگ بندی ہوئی تھی۔ اس دوران حماس نے لگ بھگ سو یرغمالوں کو رہا کیا تھا جس کے جواب میں اسرائیلی جیلوں میں قید سیکڑوں فلسطینیوں کو رہائی ملی تھی۔
حکام کے مطابق جو بائیڈن کے تجویز کردہ معاہدے کے تحت چھ ہفتوں تک مکمل جنگ بندی ہو گی۔ ان 42 دنوں کی جنگ بندی میں حماس معمر، بیمار اور خواتین یرغمالوں کو رہا کرے گی جب کہ اسرائیلی جیلوں سے سیکڑوں قیدی رہا کیے جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی فوج کا غزہ کے گنجان آباد علاقوں سے انخلا ہوگا جب کہ شمالی غزہ سے نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں کو ان کے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ رواں ہفتے مذاکرات جاری رہیں گے۔ لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی کہ یہ کب تک جاری رہ سکتے ہیں۔
اس رپورٹ میں بعض معلومات خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے شامل کی گئی ہیں۔