|
سرینگر — بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حالیہ حملوں، جھڑپوں اور یہ پُرتشدد واقعات پر نئی دہلی میں نریندر مودی حکومت نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہفتے کو ضلع کلگام کے مُدھر گام اور فرسل چھنی گام نامی دیہات میں مبینہ عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں دو دن تک جاری رہیں۔
ان جھڑپوں میں چھ عسکریت پسند اور دو فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ رپورٹس کے مطابق عسکریت پسندوں کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا۔
ان جھڑپوں میں ہلاک عسکریت پسندوں کی شناخت یاور بشیر ڈار، ظہیر احمد ڈار، توحید احمد راتھر، شکیل احمد وانی، عادل احمد اور فیصل احمد کے طور پر ہوئی۔
ہلاک نوجوان مقامی شہری تھے
تمام عسکریت پسند مقامی کشمیری شہری تھے جب کہ حکام کا کہنا تھا کہ وہ بھاری اسلحے سے لیس تھے۔
وائس آف امریکہ کو مقامی لوگوں اور پولیس ذرائع نے بتایا کہ یہ نوجوان مارچ 2021 اور مئی 2024 کے درمیان عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گئے تھے۔
ان نوجوانوں کی عسکریت پسندوں میں شمولیت بعض مبصرین کے مطابق حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے اس دعوے کی نفی ہے کہ عسکری تنظیموں کو اسلحے کی کمی کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھرتی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
حکام کے عسکریت پسندی مخالف مہم کے دعوے
حکام مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اگست 2019 میں اور اس کے بعد حکومتی اقدامات اور عسکریت مخالف مہم کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔
نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ کے اعلیٰ حکام کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہیں کلگام میں جھڑپوں کے پس منظر میں وادیٴ کشمیر میں نوجوانوں کا عسکریت پسندوں میں شامل ہونے پر تشویش ہے۔
وزارتِ داخلہ کے اعلیٰ حکام نے جموں و کشمیر انتظامیہ او ر سیکیورٹی اداروں کو اس تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ کشمیری نوجوانوں کو بندوق سے دور رکھنے کے لیے اقدامات کریں اور غیر ملکی دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہ برتنے کی پالیسی پر عمل درآمد کو جاری رکھا جائے۔
جموں میں عسکریت پسندی پر دہلی کو تشویش
نئی دہلی کے لیے جموں میں بھی عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں باعثِ تشویش ہیں۔ ریاست میں جموں کو وادیٴ کشمیر کے مقابلے میں پرامن اور علیحدگی پسند تشدد سے پاک علاقے سمجھا جاتا تھا۔
پیر کو جموں خطے کے سرحدی ضلع کٹھوعہ میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں پانچ بھارتی فوجی ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں ان کے ساتھی زخمی ہوئے۔
حکام کے مطابق عسکریت پسندوں نے کٹھوعہ کے بڈنوٹ گاؤں کے باہر بھارتی فوجیوں کی گاڑیوں کے ایک قافلے پر پہلے دستی بموں سے حملہ کیا اور پھر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔
اس واقعے کے بعد بھارتی فوج، جموں و کشمیر پولیس اور وفاقی پولیس فورسز نے مل کر ایک وسیع علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جو منگل کو دوسرے دن بھی جاری رہا ۔
تاہم سیکیورٹی فورسز حملہ آوروں کو پکڑنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
بھارتی فوج اور مقامی پولیس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فوجی گاڑیوں پر حملہ کرنے کے بعد عسکریت پسند قریبی جنگل کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
آپریشن میں ٹیکنالوجی اور مشینری کا استعمال
بھارتی فوج نے پیر کی شام ہی کو اس علاقے میں ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہوئے پیرا شوٹ ریجمنٹ (اسپیشل فورسز) کے کمانڈوز جنہیں پیرا فورسز کہا جاتا ہے اتارے تھے۔
منگل کو جنگی ہیلی کاپٹروں نے اس جنگل کے اوپر پروازیں کیں جہاں عسکریت پسندوں کے چھپنے کی اطلاعات ہیں۔
آپریشن میں ڈرونز اور تربیت یافتہ کتوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
وزیرِ دفاع کا اظہارِ تشویش
بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے کٹھوعہ میں عسکریت پسندوں کے حملے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ علاقے میں عسکریت مخالف کارروائیاں جاری ہیں۔
عسکریت پسندی میں اضافے پر سوالات
موجودہ صورتِ حال پر مقامی صحافی اور تجزیہ کار احمد علی فیاض نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ 2019 کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں سے مقابلوں میں جو عسکریت پسند مارے گئے تھے ان میں سے متعدد کا تعلق پاکستان سے تھا کیوں کہ عسکری تنظیموں میں مقامی افراد کی شمولیت صفر پر آ گئی تھی۔
ان کے بقول حکام کو چاہیے کہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ کلگام میں مارے گئے عسکریت پسندوں نے بندوق کب اٹھائی اور ان کے عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہونے کی وجوہات کیا تھیں؟
انہوں نے کہا کہ اگر یہ واقعی ایک تازہ رجحان ہے تو وادی بلا شبہ ایک بڑی اور وسیع مصیبت سے دو چار ہے۔
نوجوانوں کے غصے کا اظہار
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کلگام کے ایک شہری محمد اسحاق (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے کہا کہ آٹھ جولائی 2016 کو معروف عسکری کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد جموں و کشمیر بالخصوص وادیٴ کشمیر کے جنوبی اضلاع میں چھ ماہ تک شورش کے دوران سیکیورٹی اداروں نے مقامی آبادی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس سے لوگوں کے دلوں پر لگے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہو سکے۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ نوجوان اب بھی بندوق کی طرف مائل ہیں۔ انہیں جب بھی اور جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔
جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ رشمی رنجن سوین نے کلگام میں نصف درجن عسکریت پسندوں کی ہلاکت کو سنگِ میل قرار دیا۔
عسکریت پسندوں کی ہلاکت حزب المجاہدین کے لیے دھچکا
ایک اور اعلیٰ پولیس عہدیدار جاوید احمد متو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ کلگام میں جھڑپوں میں چھ عسکریت پسندوں کی ہلاکت حزب المجاہدین کے لیے دھچکا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی آبادی کے ایک بڑے حصے میں بھارت مخالف سوچ اور جذبات کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو پر تشدد سرگرمیوں کے لیے اکسانے میں سوشل میڈیا کا بڑا کردار ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سوین نے حال ہی میں کہا تھا کہ ایسی آٹھ ہزار سوشل میڈیا سائٹس ہیں جو ان کے بقول جموں و کشمیر کے بارے میں ایک جھوٹے بیانیے کی تشہیر کر رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کا کردار
انہوں نے کہا تھا کہ ہم نہ صرف مسلح دہشت گردوں کے خلاف ہی لڑ رہے ہیں بلکہ لگ بھگ آٹھ ہزار جعلی سوشل میڈیا ہینڈلز کے جھوٹے بیانیے کو پھیلانے کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں۔ یہ سوشل میڈیا ہینڈلز فیس بک، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور انسٹاگرام پر سرگرم ہیں۔
ان کے بقول ان کے چلانے والے سرحد پار (پاکستان میں) بیٹھے ہیں۔ ان کا مقصد جموں و کشمیر میں تشدد اور دہشت گردی کو بڑھاوا دینا ہے۔ یہ غلط اطلاعات کی تشہیر کر رہے ہیں اور کشمیری نوجوانوں کو اکسا رہے ہیں۔
حملوں میں اضافہ
گزشتہ ماہ عسکریت پسندوں نے جموں میں یکے بعد دیگرے چار حملے کیے تھے۔
ان حملوں میں نو عام شہریوں سمیت ایک درجن سے زائد افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہوئے تھے۔ ان حملوں کے بارے میں تجزیہ کاروں اور عسکری ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ خطے میں امن عامہ کی مخدوش صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ حملے بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی طرف سے دیے گئے اس بیان کے فوری بعد کیے گئے تھے کہ پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں علیحدگی پسند تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
بھارتی وزارتِ داخلہ کی ایک رپورٹ میں بھی اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں پر تشدد واقعات کے ساتھ ساتھ عام شہریوں اور حفاظتی دستوں کی ہلاکتوں میں واضح کمی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو منسوخ کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے قرار دیا تھا۔
پولیس سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جموں خطے کے مختلف علاقوں میں 2021 سے لے کر اب تک عسکریت پسندوں کے حملوں اور طرفین کے درمیان جھڑپوں کے دوران 45 سے زائد فوجی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ اس دوراں نصف درجن عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا گیا اور کئی شہری بھی تشدد کی نذر ہوگئے ہیں۔
جموں کی صورتِ حال پر اجلاس
جموں میں ہلاکت خیز واقعات کے بعد وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے 16جون کو نئی دہلی میں ایک ہنگامی اجلاس بلایا تھا جس میں جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا اور پولیس کے سربراہ نے بھی شرکت کی تھی۔
اس اجلاس کے دوران وزیرِ داخلہ نے جموں و کشمیر انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ وادیٴ کشمیر ہی کی طرح جموں خطے میں دہشت گردی کو کچلنے کے لیے سخت اقدامات کریں۔
ان کے بقول وہاں عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کو کسی بھی صورت میں سر اٹھانے کی اجازت نہ دی جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ عسکریت پسندوں کا پتہ لگانے کے لیے انسانی ذہانت پیدا کی جائے۔ کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور جموں میں بھارت پاکستان سرحد پر واقع ان پوائنٹس کو بند کیا جائے جہاں سے در اندازی کے امکانات ہیں۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 20 جون کو سرینگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے جموں خطے میں دہشت گردوں کے حملوں کا سنجیدہ نوٹس لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جموں و کشمیر میں امن کے دشمنوں کو سبق سکھانے کے لیے تمام اقدامات کریں گے۔
’تشدد کے تازہ واقعات ایک نئے سیاسی ماحول میں پیش آ رہے ہیں‘
تجزیہ کار اور صحافی ظفر چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کٹھوعہ کے ایک اندرونی علاقے میں تازہ حملے نے جموں میں دہشت گردی اور تشدد واقعات میں اضافے کو تشویش کی نئی حدوں تک پہنچا دیا ہے۔
ان کے بقول وقت آ چکا ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ ایک ایسے سوچے سمجھے ماڈل پر عمل درآمد ہو رہا ہے جو تین دہائیوں پہلے کی دہشت گردی سے بالکل مختلف ہے۔
انہوں نےکہا کہ ’’ہمیں اعداد و شمار کے جال میں پڑ کر کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے اور نہ اپنے آپ کو فریب میں مبتلا کرنا چاہیے۔‘‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ظفر چوہدری نے کہا کہ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جموں خطے میں حالیہ پُر تشدد واقعات کے نتیجے میں جو جانی نقصان ہوا ہے وہ 20 سال پہلے کی خون ریزی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ تشدد کے تازہ واقعات ایک نئے سیاسی ماحول میں پیش آ رہے ہیں اور ان کے مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول ’’جموں وادیٴ کشمیر کی طرح نہیں ہے اور جو حکمتِ عملی وادی کشمیر میں بڑی حد تک کامیاب رہی، ضروری نہیں کہ وہ جموں میں بھی کامیاب رہے"۔
سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا ہے کہ کسی ایک حملے میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت گہری تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔
ان کے بقول لگتا ہے کہ حکومت اس زعم میں مبتلا ہے کہ اس نے پانچ اگست 2019 کو جو کچھ کیا وہ تمام مسائل جن میں تشدد اور دہشت گردی کے مسئلے بھی شامل ہیں، کا حل ہے لیکن ظاہر ہے یہ حقیقت نہیں ہے۔"