|
ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ نے جریدے نیوز ویک کو ایک انٹرویو میں بتایا ہےکہ تہران جوہری معاہدے میں اپنی شرکت بحال کرنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
منگل کو شائع ہونےو الے انٹرویو میں علی باقری کنی کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کی تیاری کر رہے ہیں۔
نیوز ویک کی رپورٹ کے مطابق : "خارجہ پالیسی کے محاذ پر، انہوں نے (باقری کنی)نے کہا کہ تہران جوہری معاہدے میں باہمی شرکت کو بحال کرنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے اب بھی تیار ہے۔"
تاہم ایران چین، روس اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کو فروغ دینے کا بھی ارادہ رکھتا ہے، میگزین نے ان کے حوالے سے کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران غزہ جنگ کے پیش نظر اسرائیل کے خلاف مزید کارروائی کا بھی مطالبہ کرے گا۔
بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ ایران نئے صدر کے تحت ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
باقری کنی مئی میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان کی موت کے بعد قائم مقام وزیر خارجہ بنے تھے۔
اس کے بعد ایرانیوں نے مسعود پیزشکیان کو صدر کے طور پر منتخب کیا، جو ایک اعتدال پسند رہنما ہیں جنہوں نے کہا ہےکہ وہ ایک معقول خارجہ پالیسی کو فروغ دیں گے اور 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل طاقتوں کے ساتھ کشیدگیاں کم کریں گے۔
امریکہ 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر قیادت ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا، جس نے تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔
معاہدے کی بحالی کے لیے امریکہ اور تہران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ایران اب بھی معاہدے کا حصہ ہے لیکن اس نے امریکی پابندیوں کی وجہ سے اپنی وابستگیوں میں کمی کر دی ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق ایران جوہری ہتھیار نہ رکھنے والے ملکوں میں وہ واحد ملک ہے جو 60 فیصد کی بلند سطح تک یورینیم کی افزودگی کرتا ہے اور یورینیم کے بڑے ذخائر بھی جمع کر رہا ہے۔
مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم ایران اس دعوے کی ہمیشہ سے تردید کرتا آ رہا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم