|
اب جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو 24 جولائی کو امریکی کانگریس سے خطاب اور صدر بائیڈن سے ملاقات کے لیے اگلے ہفتے امریکہ روانہ ہونے والے ہیں،تل ابیب میں یرغمالوں کے خاندان اپنے عزیزوں کی رہائی کے حوالے سے ان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
بدھ کی رات یرغمالوں کے خاندانوں کے سینکڑوں افراد اور ان کے حامی اسرائیلی لیڈر کی امریکہ روانگی سے قبل ان پر بار دباؤ ڈالنے کے لیے اکٹھے ہوئے ۔
ایک بینر پر لکھا تھا،’’نیتن یاہو، کوئی معاہدہ طے کیے بغیر سفر نہ کریں۔‘‘’ ایک دوسرے پر لکھا تھا، ’’وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔"
اختلافات کیا ہیں؟
وہ سب شدو مد سے اپنے یرغمال عزیزوں کی واپسی چاہتے ہیں لیکن ان کے درمیا ن اس بارے میں کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں ہورہا کہ رہائی کس طریقے سے عمل میں لائی جائے؟ کوئی معاہدہ طے کر کے یا فوجی کارروائی جاری رکھ کر؟
کچھ لوگ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر یہ الزام لگاتے ہوئے اپنی مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ حماس کو مکمل شکست دینے کی کوشش میں یرغمالوں کو قربان کر رہے ہیں ۔
کچھ دوسرے حکومت کے اس موقف کی حمایت کررہے ہیں کہ صرف غزہ میں فوجی طاقت میں اضافے سے ہی یرغمالوں کو واپس لایا جاسکے گا۔
اختلاف الگ رکھ کر کسی مشترکہ طریقے کی تلاش
’’خاندانوں کے درمیان کوئی اتحاد نہیں ہے۔‘‘ یہ کہنا تھا ڈانی میران کا، جن کے 47 سالہ بیٹے عمری کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے غیر معمولی حملے کے دوران نہا ل اوز کبوٹز سے بندوق کی نوک پر یرغمال بنا کر لے جایا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ، ’’کچھ لوگ بائیں جانب ہیں، کچھ دائیں جانب، مذہبی لوگ ہیں، سیکولر اور بدو ہیں، ہمیں کوئی مشترکہ راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ َ‘‘
اب جب تقریباً 300 دن ہو چکےہیں خاندانوں نے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تل ابیب میں کم از کم ہفتے میں ایک بار سنجیدہ ریلیز منعقد کرنے کی کوشش کی ہے۔
میران نے کہا کہ ہمارے درمیان قدر مشترکہ یہ ہے کہ ہم یرغمالوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ لیکن ہر ایک اپنے طریقے سے یہ لڑائی لڑنا چاہتا ہے۔ اور میں نہیں جانتا کہ کونسا طریقہ درست ہے۔
نیتن یاہو کے دورہ امریکہ سے نئی امیدیں
انہتر سالہ میران نے قسم کھائی ہے کہ وہ اس وقت تک اپنی لمبی سفید داڑھی نہیں کٹوائیں گے جب تک ان کا بیٹا واپس نہیں آجاتا۔ ْ وہ ان ریلیوں میں بھی تقریر کرتے ہیں جن میں نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اگلے ہفتے امریکہ کے دورے سے پہلے جنگ بندی کا کوئی معاہدہ طے کریں۔
نیتن یاہو 24 جولائی کو امریکی کانگریس سے خطاب کریں گےاور توقع ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن سے بھی ملاقات کریں گے ۔
یہ دورہ حماس اور اسرائیل کے درمیان کئی ماہ کے بالواسطہ مذاکرات کے بعد ہورہا ہے ، جس سے کچھ خاندانوں میں کسی ایسی جنگ بندی کی امیدیں بحال ہو رہی ہیں جو اسرائیل کے پاس قید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے یرغمالوں کی واپسی ممکن بنا سکے۔
جنگ بندی اور معاہدہ یرغمالوں کی واپسی کا واحد طریقہ
عمری شیوی نے جن کے بھائی ایدن غزہ میں قید ہیں کہا کہ معاہدے کے لیے دباؤ کی بنیاد سیاسی سے زیادہ اخلاقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ،ہم اپنے پیاروں کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں ہم حکومت کو گرانا نہیں چاہتے۔
قریب ہی یرغمالوں کے خاندانوں کے ایک فرد، یطاف کلڈرون نے حکومت سے اقتدار سےالگ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے، اس بات سے اختلاف کیا۔
کیلڈرون نے جن کے فرانسیسی نژاد کزن اوفر کیلڈرون کو نیر اوز کبوٹز سے یرغمال بنایا گیا تھا، کہا کہ ہم جنگ کا فوری خاتمہ اوراسی وقت ایک معاہدہ چاہتے ہیں۔ یہی انہیں گھر واپس لانے کا واحد طریقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ،’’ کوئی بھی جارحانہ کارروائی ان سب کو واپس نہیں لائے گی۔ نو ماہ میں فوجی کارروائیوں میں صرف سات لوگوں کو بچایا جا سکا ہے ۔‘‘
نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران 100 سےزیادہ یرغمالوں کو آزادکرایا گیا تھا جس سے خاندانوں کو یہ یقین ہوگیا کہ بہتری اسی میں ہے کہ ایک اور معاہدہ طے کیا جائے۔
کامیابی تک جنگ
ایک یرغمال اوی نتن کےوالد یارون، اس اقلیتی کیمپ کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا خیال ہے کہ جنگ بندی کا کوئی معاہدہ اسرائیل کو ایک اور حملے کے خطرے میں ڈال کر اس کےمستقبل کو نقصان پہنچا ئے گا۔
بدھ کی رات کی ریلی میں انہوں نے ایک بینر اٹھایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا،’’ لڑیں جب تک فتح حاصل نہ ہو اور اوینتن کو واپس نہیں لایا جاتا۔ ‘‘
اوی نیتن کو ان کی گرل فرینڈ نوآ ارگمانی کے ساتھ نووا میوزک فیسٹیول سے اغوا کیا گیا تھا ۔ ارگمانی ان چار یرغمالوں میں شامل تھیں جنہیں جون کےمہینے میں اسرائیلی فوجی حملے کے دوران رہا کرایا گیا تھا۔
انداز فکر مختلف، مقصد ایک
’’وہ صرف اس صورت میں یرغمالوں کو رہا کریں گے،جب فوج پورے غزہ کی پٹی کا کنٹرول حاصل کر لیتی ہے اور رہائشی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حماس کو شکست ہو گئی ہے۔’’ یہ کہنا تھا یارون کا جو خاندانوں کے اس گروپ میں شامل ہیں جو حماس کےساتھ گفت و شنید کو مسترد کرتا ہے۔
اگرچہ یرغمالوں کے خاندانوں کی سوچوں کے زاویے مختلف ہیں لیکن وہ اپنے مشترکہ مقصد کےحصول کےلیے دباؤ ڈالنےکے لیے مسلسل اکٹھے ہور ہے ہیں ،اور وہ ہے یرغمالوں کی گھر واپسی کے۔
بدھ کے روز تل ابیب کا مرکز ایک بار پھر ان کے نعروں سے گونج اٹھا ، اور وہ نعرہ تھا، اخشاو ، یعنی’ ابھی‘ ( انہیں ابھی واپس لائیں )۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم