|
ویب ڈیسک — بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اتوار کو سرکاری ملازمتوں میں اکثریتی کوٹے کو ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں طلبہ احتجاج کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اٹارنی جنرل اے ایم امین الدین نے بتایا کہ نچلی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایپلٹ ڈویژن نے ہدایت کی ہے کہ 93 فی صد سرکاری ملازمتیں میرٹ پر امیدواروں کے لیے بغیر کوٹے کے دی جائیں گی۔
امین الدین کے بقول احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ پر تشدد کارروائیوں میں ملوث نہیں تھے۔ ان کے مطابق حکومت تشدد کرنے والوں کو تلاش کرے گی۔
وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے 2018 میں ہونے والے احتجاج کے بعد کوٹا سسٹم ختم کر دیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ اسے بحال کر دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت 56 فی صد سرکاری ملازمتیں کوٹے کے تحت دی جانی تھیں۔ اس میں بھی ایک بہت بڑا حصہ 30 فی صد ان لوگوں کے لیے مختص تھا جن کے اہلِ خانہ نے ملک کی جنگِ آزادی میں کردار اداد کیا تھا۔
ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بنگلہ دیش میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور ملک بھر کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق کوٹا سسٹم کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران جھڑپوں میں 114 افراد ہلاک ہوئے۔
مقدمے میں شامل ایک وکیل شاہ منظور الحق کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنا فیصلہ دینے کے بعد احتجاج کرنے والے طلبہ سے کلاسوں میں واپس جانے کا بھی کہا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگِ آزادی سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کے لیے سرکاری ملازمتوں کا پانچ فی صد کوٹا مختص کیا گیا ہے جب کہ پہلے ان کے لیے 30 فی صد کوٹا مختص تھا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق اب 93 فی صد سرکاری اسامیوں پر بھرتی میرٹ پر ہو گی۔
بنگلہ دیش کے قانون کے مطابق سرکاری نوکریوں میں ایک فی صد کوٹا قبائلی برادریوں کے افراد اور ایک فی صد معذور افراد یا تیسری جنس کے طور پر شناخت رکھنے والوں کے لیے مختص ہے۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ فیصلے کے موقع پر سپریم کورٹ کی قریبی سڑکیں ویران تھیں۔
دارالحکومت ڈھاکہ میں فوجی اہلکار پہلے ہی تعینات کر دیے گئے تھے جب کہ ٹی وی پر دکھایا گیا کہ سپریم کورٹ کے دروازے پر ایک فوجی ٹینک موجود تھا۔
مقامی میڈیا نے اتوار کی صبح مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی رپورٹ کیں۔
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اتوار کو لوگوں کو ضروری سامان کے حصول کے لیے کرفیو میں دو گھنٹے کا وقفہ دیا گیا تھا۔
گزشتہ چھ روز سے ڈھاکہ سمیت مختلف شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا جس میں شدت آنے کے بعد وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے فوج کو طلب کر لیا تھا۔
موجودہ حکمران عوامی لیگ ہی وہ جماعت تھی جس کے سربراہ اور موجود وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن نے 1971 میں پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی قیادت کی تھی۔
احتجاجی طلبہ کوٹا سسٹم کے خاتمے اور میرٹ کی بنیاد پر سرکاری ملازمتیں دینے کا نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔