|
ویب ڈیسک۔۔۔اسرائیلی فوج نے پیر کے روز غزہ کی پٹی کے ایک ایسے علاقے کے کچھ حصے کو خالی کرنے کا حکم دیا جسے وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر محفوظ زون قرار دے چکی ہے۔
فوج نے کہا ہے کہ وہ حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف ایک کارروائی شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جنہوں نے خود کو اس علاقے میں راسخ کر لیا ہے اور اسے اسرائیل کی طرف راکٹ داغنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس علاقے میں انسانی ہمدردی کے زون، مواسی کا مشرقی حصہ شامل ہے جو جنوبی غزہ کی پٹی میں واقع ہے۔
جس علاقے کے بارے میں اسرائیل نے اعلان کیا ہے، اس ماہ کے شروع میں، اس نے کہا تھا کہ اس کا اندازہ ہے کہ کم از کم 18 لاکھ فلسطینی اس وقت بحیرہ روم کے ساتھ تقریباً 14 کلومیٹر لمبی اس پٹی پر رہ رہے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے سزا دینے کے لیے فضائی اور زمینی حملوں کی مہم کے دوران بہت سے فلسطینی تحفظ کی تلاش میں کئی بار نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس علاقے کا بیشتر حصہ اب ایسی خیمہ بستیوں سے بھرا ہوا ہے جہاں صفائی اور طبی سہولیات کا فقدان ہے اور امداد تک رسائی محدود ہے۔ خاندان کچرے کے بڑے بڑے ڈھیروں اور سیوریج سے آلودہ نالوں کے درمیان رہ رہے ہیں۔
یہ اعلان غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے نازک مذاکرات کے دوران سامنے آیا ہے، جب کہ امریکی اور اسرائیلی حکام اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ کوئی معاہدہ طے ہونے کے اتنا قریب ہے جتنا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا، اور جب وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، صدر جو بائیڈن سے ملاقات اور کانگریس سے خطاب کے لیے امریکہ کے ایک بہت متوقع دورے کی تیاری کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ جمعرات کو مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ایک مذاکراتی ٹیم بھیجی جائے گی۔ مصر، قطر اور امریکہ اسرائیل اور حماس پر مرحلہ وار جنگ بندی کے ایک معاہدے پر زور دے رہے ہیں جس کے تحت لڑائی رک جائے گی اور یرغمال رہا ہوں گے۔
اسرائیلی فوج نے پیر کو کہا کہ وہ وسطی اور جنوبی غزہ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اتوار کے روز، غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں، اسپتال کے حکام اور ایسو سی ایٹڈ پریس کے ایک صحافی کی جانب سے لاشوں کی ایک گنتی کے مطابق ،خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے۔
محصور غزہ میں پولیو وائرس کی دریافت کے بعد، انسانی ہمدردی کے پہلے سے ہی مخدوش حالات مزید خراب ہو گئے ہیں کیوں کہ اس علاقے کے 23 لاکھ لوگوں کے لیے، جن میں سے بیشتر بے گھر ہیں، پانی اور صفائی کی سہولیات کی فراہمی ابتر ہو گئی ہے۔ وائرس کے آثار غزہ میں سیوریج کے نمونوں میں پائے گئے تھے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے پیدا ہونے والی علامات کے لیے کسی کا علاج نہیں کیا گیا ہے۔
اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ فوجیوں کو ٹیکے لگائے جائیں گے اور وہ تنظیموں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے لیے ویکسین لانے پر کام کرے گی۔
نیتن یاہو نے حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کرنے اور باقی ماندہ یرغمالوں کو واپس لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
یرغمالوں کے خاندان اور ہزاروں دوسرے اسرائیلیوں نے وزیر اعظم پر جنگ بندی کے کسی ایسے معاہدے پر زور ڈالنے کے لیے ہفتہ وار مظاہرے کیے ہیں جس کے تحت ان کے عزیزوں کو گھر لایا جا سکے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 38,900 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ وزارت اپنی گنتی میں جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق نہیں کرتی ہے۔
یہ جنگ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے سے شروع ہوئی جس میں 1,200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، اور تقریباً 250 کو یرغمال بنا یا گیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق، ابھی تک حماس کے پاس تقریباً 120 یرغمال موجود ہیں جن میں سے تقریباً ایک تہائی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیاگیا ہے۔
فورم